گوجرخان،اہم عمارتیں شہر سے باہر منتقل کرنا ناگزیر 104

مسائل کا مدوا عوامی نمائندوں کی اولین ذمہ داری

قارئین کرام! ترقی یافتہ ممالک میں جہاں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے جدید خطوط پہ ترقی کے سفر جاری ہیں وہیں عوام کی بنیادی ضروریات بجلی گیس پانی گلی نالی سیوریج صحت و تعلیم روزگار سے متعلق بھی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، وہاں کسی میئر کونسلر چیئرمین ممبر پارلیمنٹ کی پالش نہیں کرنی پڑتی اور نہ انہیں مسائل بذریعہ درخواست بتائے جاتے ہیں، ان ممالک میں عوامی نمائندوں کا یہ کام ہی نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی کام میونسپل سطح کی ایڈمنسٹریشن خود کرتی ہے اور کسی شکایت کا موقع بھی نہیں دیتی اور اسی وجہ سے وہاں لوگ ٹیکس بروقت اور فرض عین سمجھتے ہوئے دیتے ہیں کیونکہ انکو بنیادی سہولت گھر کی دہلیز پہ میسر ہوتی ہے

دوسری جانب ہم اپنے وطن عزیز کا حال دیکھیں تو یہ بے حال ہے، کونسلر سے لے کر ایم این اے تک اور پھر وزارتوں میں وزیراعظم تک گلی نالی سڑک کھمبے اور میٹر ٹرانسفارمر کی سیاست کرتے نظر آتے ہیں، ترقی کا یہ عالم ہے کہ ہم سڑک کی تعمیر کی درخواست دینے اور کرم کی بھیک مانگنے جاتے ہیں تو اس صاحب اقتدار کیساتھ ایسے فخریہ فوٹو بنواتے ہیں جیسے ہم محاذ فتح کرنے آئے ہیں، ٹینڈر ہو جائے تو اخبارات کے تراشے سوشل میڈیا پہ ایسے شیئر کرتے ہیں جیسے ہم نے دشمن ملک پہ فتح حاصل کر لی اور انکا بس نہیں چلتا یہ ٹینڈر کو فریم کرا کے گلے میں لٹکا لیں، ایسی صورتحال گلیوں کی تعمیر کی ہے اور کھمبوں ٹرانسفارمر کی تنصیب کی بھی ہے، جب راقم مختلف سوشل میڈیا اکاونٹس پہ بجری ریت سیمنٹ کی مکسچر مشین کے ساتھ فوٹو دیکھتا ہے، بجلی کے کھمبوں ٹرانسفارمرز اور سرکاری ملازمین کیساتھ فوٹوسیشن اور گانوں کیساتھ ویڈیوز سمیت شکریہ ادا کرنے کے الفاظ دیکھتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم کس قدر ذہنی و عقلی گراوٹ کا شکار ہیں،

جو کام ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کے ازخود کرنے کے ہوتے ہیں وہ یہاں جوتے گھسا گھسا کر کروائے جاتے ہیں اور پھر اس پہ بھی فخر محسوس کیا جاتا ہے حالانکہ ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔۔۔
قارئین کرام! کہتے ہیں جب دوسروں کو کسی بات کی تلقین کرو تو پہلے اس پہ خود عمل کرو اور یہی شریعت کا حکم بھی ہے، راقم جہاں رہائش ہذیر ہے وہاں میرے گھر کو جانے والی گلی 1990 سے اینٹوں کی بنی ہوئی ہے اور اس کو آج تک راقم پختہ کنکریٹ نہیں کروا سکا اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ میں ذہنی و عقلی گراوٹ کا شکار نہیں ہو سکتا ورنہ یہ کونسا مشکل کام ہے، ایک ملاقات اور فوٹوسیشن کے بعد ایک ماہ کے اندر میری گلی پختہ ہو سکتی ہے مگر پھر مجھے باقی غلاموں کی طرح شکریہ ادا کرنا پڑے گا جو میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کیونکہ یہ میرے ٹیکس کا پیسہ اگر مجھ پہ لگتا ہے تو اس میں کسی کا شکریہ ادا کرنا بنتا نہیں اور یہ بات نسل در نسل ذہنی غلاموں کو سمجھ نہیں آتی، بجلی کے ہزاروں کے بل اور ان میں دس قسم کے ٹیکس شامل کر کے جو ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے

، ماچس کی ڈبیا اور دیا سلائی سے لے کر ایئرکنڈیشنڈ اور گاڑیوں کی خریداری تک جو ٹیکس میں اور آپ دیتے ہیں اس ٹیکس سے ایم این اے، وزیر مشیر بیوروکریسی اور اشرافیہ و مراعات یافتہ طبقے کی بجلی مفت میں جلتی ہے، انکی گاڑیوں میں پٹرول اسی ٹیکس سے پڑتا ہے انکی نسلیں عیاشیاں اسی ٹیکس کے پیسے سے دیتی ہیں ۔ اگر آپکے ٹیکس سے آپکی گلی پختہ ہوتی ہے، آپکی ضرورت کے تحت بجلی کے کھمبے اور ٹرانسفارمر نصب ہوتے ہیں، آپکی ضرورت کیلیے صحت و تعلیم کا مناسب بندوبست ہوتا ہے تو اس میں ذریعہ بننے والے کا شکریہ ادا کرنا کیسا ؟؟ وہ اس ضرورت کو بہم پہنچانے کا صرف ذریعہ ہے اور اس ذریعہ کے ذریعہ بھی وہ آپکو اور مجھے کروڑوں کا ٹیکہ لگاتا ہے ، مثال کے طور پر ایک ٹینڈر 20 کروڑ کا جاری ہوتا ہے تو اس کا تخمینہ لاگت تو 12 کروڑ بنتی ہے تو باقی 8 کروڑ کون کھا جاتا ہے ؟؟

وہ کمیشن وہ ذریعہ بننے والا شخص لیتا ہے کیونکہ یہ کرپٹ نظام ہی ایسا ہے، جس کو ٹھیکہ ملتا ہے وہ بھی ڈنڈی مارتا ہے اور ناقص میٹیریل استعمال کر کے کم سے کم لاگت میں منصوبہ مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی جیب بھی اسی طرح بھری جاتی ہے اور ٹھیکیدار بھی انکے اپنے نوازے ہوتے ہیں جو خود بھی کھاتے ہیں اور انکو بھی کھلاتے ہیں ۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ ہمارے ٹیکس کا پیسہ ہم پہ لگا کر احسان جتلانے والے لوگ ہمارے ساتھ اور ہمارے ملک کیساتھ کتنے مخلص ہیں ۔۔۔
دوسری جانب یہی منتخب نمائندے اور اعلیٰ ایوان اقتدار کی کرسیوں پہ براجمان افراد عوام کو صحت و تعلیم اور روزگار کی بنیادی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں جس کا بنیادی مقصد عوام کو ذہنی غلام رکھنا ہے کہ یہ ہر چیز کیلیے ترسیں اور ہمارے دروازے پر آ کر جھکیں اور ہر بار یہ ہمارے شکرگزار رہیں، انکی اپنے حلقہ میں پالشی ٹیم بھی ہوتی ہے جو ہر جگہ کریڈٹ اپنے صاحب بہادر کو دینے کے چکر میں ہوتی ہے وہ ٹیم اپنے مفادات اور اپنے صاحب کے مفادات کو تحفظ دینے کیلیے آپکو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پہ ہر ذی شعور شخص سے بحث مباحثہ کرتے اور سفید کو کالا اور کالے کو سفید ثابت کرنے میں لگی دکھائی دیتی ہو گی وہ لوگ عام عوام سے بھی زیادہ ذہنی گراوٹ و پستی کا شکار ہیں کیونکہ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی عوام کو بیوقوف بنانے کیلیے لگائے گئے ہوتے ہیں ۔۔
یہ سلسلہ 75 سالوں سے چل رہا ہے اور اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی تو یہ جاری رہے گا، کیونکہ غلامی کے بت کو توڑنے اور اپنا حق لینے کیلیے جاگنا پڑتا ہے، ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ہماری بنیادی ضروریات کو اگر کوئی شخص یا حکومت پورا کرتی ہے تو وہ ہم پر احسان نہیں کرتے یہ ہمارا حق ہے اور اب ہمیں حق لینا آنا چاہیے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں