165

گوجرخان میں سیاسی پارہ ہائی،تحریک انصاف کے لیے الیکشن مشکل ہوگیا

قارئین کرام! قاضی فائز عیسیٰ رات کو عدالت لگانے اور الیکشن کا فیصلہ کرنے کے بعد بیرون ملک روانہ ہو گئے، ان کی غیر موجودگی میں تعینات نگران چیف جسٹس نے بھی ابھی تک اسی فیصلے کی روشنی میں فیصلے کئے ہیں، دیہاتوں و شہروں میں ہوٹلز اور مارکیٹوں میں ٹیبل کرسی کی کارنر میٹنگز میں بیٹھے پرانے پرانے بابے اب بھی یہی کہتے ہیں کہ الیکشن نہیں ہوں گے مگر چونکہ کاغذات نامزدگی کا حصول اور جمع کرانے کا عمل مکمل ہو چکاہے اور اس کے آگے جانچ پڑتال، انتخابی نشان،پارٹی ٹکٹس، کاغذات واپسی کا عمل ابھی ہونا ہے تو اشارے یہی ہیں کہ الیکشن 8فروری کو ہونے جا رہے ہیں، ملک بھر میں جوڑ توڑ کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، پی ٹی آئی سے پرندے اُڑان بھر کر ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں، استحکام پارٹی بھی سرگرم ہے، انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے بھی اجلاس ہورہے ہیں تو اس وقت گوجرخان کی سیاست میں ہلکی ہلکی ہلچل محسوس کی جارہی ہے، جب تک پارٹی ٹکٹس کا اجراء کر کے پارٹیاں اپنے امیدوار فائنل نہیں کر دیتیں تب تک یہ ہلچل ہلکی ہلکی ہی رہے گی اس کے بعد یکدم تیزی آنے کے امکانات نظرآرہے ہیں،

تعلیمات حسینؑ سے اس قدر دور کیوں؟

مسلم لیگ ن کے امیدواروں میں راجہ جاوید اخلاص، شوکت عزیز بھٹی، افتخار احمد وارثی فیورٹ قرار دیئے جارہے ہیں جنہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں، پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، خرم پرویز راجہ، چوہدری سرفراز خان نے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں، چوہدری ساجد محمود گجر کے نام پہ بھی چہ مگوئیاں ہورہی ہیں، پی ٹی آئی کے 60سے زائد امیدواروں کیخلاف راولپنڈی کے تھانے آر اے بازار سے ایک فہرست جاری ہوئی ہے جن کی گرفتاری کیلئے اجازت طلب کی جارہی ہے،جن میں سابق ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر، سابق ایم پی اے چوہدری ساجد محمود، سابق رہنما تحریک انصاف چوہدری محمد عظیم بھی شامل ہیں، نظر یہی آرہاہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملنا مشکل ہے اور ان کے جو بھی امیدوار سامنے آئیں گے ان کیخلاف بھی مقدمات درج کرنے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
گوجرخان کے حلقہ PP8 میں پیپلزپارٹی نے چوہدری اعظم پرویز کو اپنا امیدوار بنایا تھا اور ان کے جی ٹی روڈ اور ملحقہ سڑکوں پہ جگہ جگہ بینرز بھی موجود ہیں مگر چوہدری اعظم پرویز کی کمزور سیاسی پوزیشن دیکھتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے اپنے بیٹے خرم پرویز کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا اور موروثی سیاست کو جاری و ساری رکھنے کا بہ بانگ دہل اعلان کردیا، حلقہ میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ورکرز میں حلقہ PP8 میں ایک بھی ایسا باشعور پڑھا لکھا باکردار شخص نہیں ہے جس کو پارٹی ٹکٹ دے کر اپنے امیدوار کے طور پر سامنے لا سکے، پیپلز پارٹی عوام کی جماعت کہلاتی ہے مگر موروثیت کو ہر جگہ فوقیت دی جارہی ہے۔

تو دوسری جانب یہ بھی باتیں گردش کررہی ہیں کہ چوہدری اعظم پرویز کو قریبی اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے مروایا ہے، گو کہ اعظم پرویز، راجہ پرویز اشرف کے اس فیصلے پہ اطمینان کااظہار کرتے ہیں اور خرم پرویز کی کمپین کرنے کا اعلان کر چکے ہیں مگر سیاسی میدان میں کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو پی پی 8سے جیت میں شرقی گوجرخان کا بہت بڑا اور ناقابل فراموش کردار ہوتاہے اور اعظم پرویز کو الیکشن میں نہ اُتار کر یہ جگہ خالی چھوڑی گئی ہے جو عنقریب
کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی، اعظم پرویز کو ممکنہ طور پر پیپلزپارٹی کی طرف سے یہ طفل تسلیاں دی گئی ہیں کہ آپکی اس عظیم قربانی کے بدلے بڑی سیٹ دے کر خوش کر دیا جائے گا، لیکن ایم پی اے کی سیٹ سے بڑی سیٹ کونسی ہے یہ بتایا نہیں گیا۔ جبکہ اعظم پرویز کے خیرخواہ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا کہ ٹکٹ نہیں ملا ورنہ بری طرح ہار بھی جاتے اور پیسہ بھی الگ ضائع ہو تا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری جاوید کوثر جیل جاتے ہیں یا الیکشن نہیں لڑتے تو ن لیگ کے متوقع امیدوار افتخار احمد وارثی شرقی گوجرخان سے کلین سویپ کرتے ہوئے الیکشن میں واضح برتری لیتے ہوئے نظر آرہے ہیں،جبکہ میرے تجزیئے کے مطابق قومی اسمبلی کی نشست کا فیصلہ کرنے کیلئے پی پی 9کے امیدواروں کا فائنل ہوجانا ہی رزلٹ ہوگا، ن لیگ اور پی ٹی آئی جونہی اپنے ٹکٹ پہ امیدواروں کا اعلان کریں گے تو ساتھ ہی الیکشن کلیئر نظر آ جائے گا، منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی تو اس جانب بھی اشارہ کررہے ہیں بلکہ اب تو ملکی حالات دیکھتے ہوئے ہر شخص کی زبان پہ آچکا ہے کہ آمدہ الیکشن کے بعد حکومت ن لیگ بنا رہی ہے

اور گوجرخان میں 2013؁ء کی تاریخ دہرائی جانے والی ہے۔
قارئین کرام! عوام کے پیسے پہ پروٹوکول اور عیاشیوں میں کسی وزیر، مشیر، ایم این اے، ایم پی اے نے کوئی کمپرومائز نہیں کیا، پی ٹی آئی حکومت کفایت شعار بنتی تھی اور اس کے کفایت شعار وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج نے بھی عوام کے پیسے کی وہ تباہی کی جو صدیوں یاد رکھی جائے گی، گوجرخان سے قومی اسمبلی کے حلقہ کے امیدوار راجہ پرویز اشرف چونکہ اس وقت بھی سپیکر قومی اسمبلی ہیں اور آمدہ حکومت کے انتخاب اور سپیکر کے انتخاب تک قومی اسمبلی کے سپیکر رہیں گے تو انہوں نے بھی بمعہ اہل و عیال عوام کے پیسے پہ پروٹوکول انجوائے کرنا ہے، ان کے بیٹوں کیساتھ قومی اسمبلی کا پروٹوکول ہوتاہے، ان کے بھائی اور بھائی کے بیٹوں کے ساتھ بھی ایف سی کے نوجوان ڈیوٹی کرتے ہیں، جبکہ اس سے بھی بڑاظلم یہ ہے کہ ان کے اہل خانہ اور سکول پڑھتے بچے بھی پروٹوکول میں سفر کرتے ہیں اور یہ سب عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ہورہاہے۔ چونکہ کم عقل اور جاہل عوام پروٹوکول سے مرعوب ہونے والی ہی ہے اس لئے ان کو ایسے ہی کردار اچھے لگتے ہیں جن کے آگے ہٹو بچو کی صدائیں لگانے والے ہوتے ہیں، جلسوں میں گاڑیوں کے آگے ڈھول کی تھاپ پہ دھمالیں ڈالنے والوں کو شاید اس بات کا علم ہی نہیں کہ ان گاڑیوں میں ان کے خون پسینے سے نچوڑا جانے والا ٹیکس کا پیسہ استعمال ہوتاہے،

یہ جن کروڑوں روپے مالیت کے گھروں میں رہتے ہیں وہاں ماچس کی ڈبی سے لے کر ایئرکنڈیشنڈ تک عوام کے ٹیکس کے پیسے سے چلتاہے، مگر جاہل و کم عقل لوگ دھمالیں ڈالنے، نعرے مارنے اور لائنوں میں لگ کر ووٹ دینے کے بعد پانچ سال تک گیس مہنگی، بجلی مہنگی، روٹی مہنگا، آٹا مہنگا، دالیں مہنگی، گھی مہنگا، گیس لوڈشیڈنگ، بجلی لوڈشیڈنگ پہ انہی کو کوس رہے ہوتے ہیں اور ہائے مہنگائی مار گئی مہنگائی کے نعرے سڑکوں پہ مارتے دکھائی دیتے ہیں، عوام لائنوں میں لگ کر انہی کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتی ہے اور پھر ان کو پانچ سال کوستی رہتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حلقے کی عوام آنکھیں کھول کر شریف، دیانتدار، ایماندار شخص کو ووٹ دے، چاہے وہ امیدوار ہار جائے لیکن آپ کو کبھی دکھ نہیں ہوگا کہ آپ کسی کرپٹ شخص کے حامی ہیں اور آپ نے کسی کرپٹ شخص کو ووٹ دے کر اپنی دنیا و آخرت برباد کی ہے، عقلمنداں را اشارہ کافی است۔ والسلام

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں