117

گوجرخان پولیس کی پھرتیاں قاتلوں کی بجائے انصاف کے متقاضی گرفتار


قارئین کرام!الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مثال آپ نے بارہا دفعہ سنی ہوگی لیکن پنجاب میں جس دن پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تھی اس کے بعد اس کی عملی مثالیں دیکھنے کو ملیں اور پی ٹی آئی کو رخصت ہوئے بھی ڈیڑھ سال گزر گیا مگر وہ اثرات زائل ہونے کا نام نہیں لے رہے، بیوروکریسی کو بے لگام کرنے میں پی ٹی آئی کا مکمل کردار شامل ہے اس سے قبل بیوروکریسی کوئی کام کرنے سے پہلے سوچتی تھی کہ ہمیں کوئی پوچھ بھی سکتاہے مگر عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ہر ایک کو یہ یقین ہوگیا کہ ہمیں پوچھنے والا کوئی بھی نہیں کیونکہ خود وزیراعلیٰ بے لگام ہے۔
میرا آج کا موضوع گزشتہ اتوار کے روز شرقی گوجرخان کے علاقہ بیول میں پولیس کی موجودگی میں ہونے والا قتل ہے

نااہل قیادت‘تحصیل گوجرخان لاوارث ہوگئی

، انچارج پولیس چوکی قاضیاں سب انسپکٹر محمد اسلم کی تعیناتی تھی اور اس دوران بیول میں ایک سانحہ رونما ہوتاہے جس کو سانحہ نہ کہنا بھی زیادتی ہے، دن دیہاڑے قبضہ کی کوشش کی جاتی ہے جس پر متاثرہ فریق نے 15پر فون کیا تو پولیس موقع پر پہنچی اور دونوں فریقین کو تھانے بلوا لیا، اس کے بعد دوبارہ مسلح افراد اسلحہ لہراتے ہوئے قبضے کی کوشش کرتے ہیں تو دوبارہ ایمرجنسی نمبر15پر(دادرسی کیلئے)کال کی جاتی ہے، پولیس موقع پر انچارج چوکی محمد اسلم کی سربراہی میں پہنچتی ہے اور پولیس کے سامنے مخالف فریق  دن دیہاڑے درجنوں افراد کی موجودگی میں فائرنگ کر کے ایک (مزدور)نوجوان کو قتل جبکہ دو افراد کو زخمی کر دیتے ہیں،مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کرنے والی پنجاب پولیس کے شی جوان سامنے کھڑے منہ دیکھتے رہے اور ملزمان کو گرفتار بھی نہ کر سکے اور ملزمان قانون کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے بھاگ گئے،

مبینہ طور پر اس قبضہ کی کوشش کے پیچھے بھاری رشوت بھی کارفرما تھی تبھی پولیس کی موجودگی میں یہ قتل بھی ہوا اور دو افراد کوزخمی بھی کیا گیا، اس سارے واقعہ کے ردعمل پر بیول کے شہریوں اور تاجروں نے بیول شہر میں سڑک بلاک کر کے پولیس کیخلاف نعرے بازی کی، اس دوران گوجرخان کی تاریخ کے نااہل ترین ڈی ایس پی سلیم خٹک موقع پر پہنچ گئے اور احتجاج کے شرکاء کو طفل تسلیاں دیتے رہے مگر چونکہ پولیس کی موجودگی میں قتل ہوا تھا تو احتجاجی شرکاء کسی طور ان کی طفل تسلیوں میں نہ آئے اور انہوں نے انچارج پولیس چوکی کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر دیا کہ یہ شخص پورا پورا اس قتل میں ملوث ہے کیونکہ یہ کھڑا منہ دیکھتا رہا، اعلیٰ افسران نے پولیس چوکی انچارج قاضیاں سب انسپکٹر محمد اسلم کو معطل کر کے بچانے کی مکمل کوشش کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے، شرکاء کے مقدمے کی بات کو نہ ماننے کا ردعمل یہ ہواکہ احتجاجی شرکاء اور لیڈکرنے والے افراد نے گوجرخان جی ٹی روڈ کو بلاک کرنے کا اعلان کر دیا اور میت لے کر گوجرخان سول ہسپتال کے سامنے جی ٹی روڈ پر پہنچ گئے اور احتجاج کرتے ہوئے، نعرے بازی کرتے ہوئے جی ٹی روڈ کو بلاک کر دیا، ایس پی صدر نے مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوئی کیونکہ مظاہرین کا کہنا تھا کہ سب انسپکٹر محمد اسلم کو قتل کے مقدمہ میں شامل کیا جائے، کئی گھنٹے سڑک بلاک رہی اور مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے تو پولیس نے بزور بازو سڑک کھلوانے کی ٹھان لی اور لاٹھی چارج کرتے ہوئے سڑک کھلوا دی اور قتل کا مقدمہ نامزد ملزمان کیخلاف درج کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاج کو لیڈ کرنے والے اور نعرے بازی کرنے والے افراد کیخلاف بھی مقدمہ درج کر لیا،

درج مقدمے کے مطابق تین نامزد ملزمان اور 50/60نامعلوم ملزمان کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا، تین نامزد ملزمان کو موقع سے گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر نامعلوم ملزمان کی گرفتاری کیلئے اگلے روز پولیس بیول کے چکر لگاتی رہی کہ جو کوئی بھی ہتھے چڑھ گیا اس کو نامعلوم کی فہرست میں ڈال کر جیل میں بھیج دیا جائے گا، گرفتار ہونے والوں کی اگلے روز ضمانت ہوگئی لیکن پولیس کے سامنے دن دیہاڑے قتل کرنے والے ملزمان پولیس کی گرفت میں نہ آسکے۔ اب آپ کو سمجھ آ گئی ہوگی کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کیا ہوتاہے۔
سب انسپکٹر محمد اسلم کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ موصوف کی تعیناتی کے دوران گزشتہ کئی مہینوں لگاتار ڈکیتی و چوری کی وارداتوں میں سے کسی واردات کو ٹریس کرنے میں موصوف اور ان کی ٹیم کامیاب نہیں ہوسکی اور ان کی مزید قابلیت ایک ویڈیو کے ذریعے بھی معلوم ہوئی کہ کچھ افراد نے بزور بازو بجلی کے کھمبے غیر قانونی طور پر لگائے جن پر واپڈا اہلکار چوکی قاضیاں کے انچارج محمد اسلم کو لے کر موقع پر پہنچے تو موصوف اور نفری کی موجودگی میں غیر قانونی کام کرنے والے افراد نے واپڈا اہلکاروں کو گالیاں دیں اور مارنے کو دوڑتے رہے،

باخبر ذرائع سے معلوم ہواہے کہ بیول میں ہونے والے قتل کی کڑیاں اوپر تک ملتی ہیں کیونکہ دیدہ دلیری کیساتھ موقع پر پولیس کی موجودگی میں اسلحہ برداروں کا قبضہ کرنے کی کوشش کرنا عام سی بات نہیں ہے اور بیول کے تاجر بھی اس پر شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ پولیس جو شہریوں کے تحفظ کیلئے ہوتی ہے وہی شہریوں کے قتل میں معاونت کررہی ہو۔ اس افسوسناک صورتحال پر سی پی او راولپنڈی نے محمد اسلم کو معطل کر کے کلوز لائن کیا مگر اس کیخلاف کوئی کارروائی ممکن نہیں لگتی، چند ماہ بعد دوبارہ بحالی اور پھر کہیں تعیناتی کر کے نوازا جائے گا اور پھر کسی جگہ مال لے کر قبضہ کرانے میں موصوف ملوث پائے جائیں گے کیونکہ اوپر سے نیچے تک سب کا کام مال سے ہی تو چلتاہے۔ اللہ کریم ہمارے ملک پہ رحم کرے اور ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں