144

محمو د شوکت بھٹی کا قسمت آزمائی کا فیصلہ

وطن عزیز میں الیکشن کا ڈھول بج چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی مہم کی گاڑی کو ٹاکی شاکی مار رہی ہیں ماسوائے تحریک انصاف کے جن کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا ہلکا پھلکا پرینک اب حقیقت میں بدل چکا ہے تاہم ایک بات تو طے ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس واضع اکثریت نہیں ہے اسی کے ہر سیاسی لیڈر کبھی اس در پر کبھی اس در پر کبھی در بدر والی کیفیت کا شکار نظر آتی ہیں نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان کی تو ٹور ہی نرالی ہے انکے پاس تو خیر سے ٹوکرے بھر بھر کے امیدواروں کا سلسلہ جاری ہے مجھے لگتا ہے کہ کہیں ٹکٹ ختم نہ ہوجائیں اور امیدوار کئی درجن بقایا رہ جائینگے ان دنوں میاں نواز شریف مری کی یاترا پر تھے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کی پرانی یادوں کو تازہ کیا انسانی فطرت ہے کہ چند سال کی جلاوطنی کے بعد انکو وطن عزیز میں گزارے وقت کی شدت سے یاد آئی کاش کہ وہ ایسی سوچ عوام کیلئے ہی رکھتے تو آج ملک کا نقشہ بدل چکا ہوتا مری یاترا کے دوران ہی انہوں نے مری سے الیکشن لڑنے کا عندیہ دیدیا ہے جسکے بعد اس حلقہ میں سیاسی کھسر پھسر بھی شروع ہو گئی ہے

ہو سکتا ہے کہ میاں نواز شریف اس حلقہ سے الیکشن لڑ جائیں اور جیت کر یہ سیٹ شاہد خاقان عباسی کوگفٹ کریں اگر وہ جیت بھی گے تو کیا انکی خالی کی گئی سیٹ پر شاہدخاقان عباسی جیت سکتے ہیں یہ سوال ایک عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑا ہے سابق ایم پی اے محمود شوکت بھٹی نے حلقہ بندیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کرلیا ہے وہ کافی عرصہ سے دونوں حلقوں میں سیاسی حوالہ سے متحرک ہیں تاہم سیاسی پنڈتوں کا دعوی ہے کہ ان کی سیاست کو بوسٹ کیا ہے چوہدری تنویر نے۔ چوہدری تنویر کے کہنے پر ہی انہوں نے لنگوٹ کس لیا ہے اور میدان میں کود پڑے ہیں اگر وہ میدان میں رہتے ہیں تو چوہدری تنویر کی مکمل سیاسی آشیر باد جاری رہیگی لیکن اگر بڑے میاں صاحب مری کی سیاست میں کود پڑتے ہیں تو پھر محمود شوکت بھٹی سمیت بہت سے سیاسی لیڈران کی مکمل طور پر میاں نواز شریف کی سیاسی بعیت کرلینگے شاہد خاقان عباسی تاحال مکمل نہ نہ کے موڈ میں اور ابھی تک نہ پر ڈٹے ہوئے ہیں راولپنڈی میں بھی ن لیگ کی سیاسی حالت کچھ صحیح نہ ہے اندرونی خلفشار اور سیاسی کھڑپینچی کا نشہ کسی صورت کم نہ ہو اس لیے سارے سیاسی ٹکٹ کیلئے کوشاں ہیں

جہاں ایک طرف میاں صاحب مری سے الیکشن لڑنے کا عندیہ دے رہے ہیں تو عمران خان کی جانب سے یہ بیان بھی گردش میں ہے کہ تحریک انصاف ٹیکسلا میں چوہدری نثار کی جیت کے لیے اسکے ہمقدم ہوگئی اور چوہدری نثار کو اسمبلی میں پہنچانا اہم ٹاسک ہے جس پر سیاسی حلقوں میں چہ میگوئیاں جاری ہیں نئی سیاسی جماعت کے غلام سرور خان کو اس بار سخت سیاسی مقابلے کا سامنا کر ہوگا کیونکہ گزشتہ الیکشنوں میں انکی جیت کے لیے اہم کردارادا کرنیوالے کرنل اجمل صابر راجہ انکی جیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہونگے اگر وہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ہوئے توتمام سیاسی جماعتوں کو ٹکر دے سکتے ہیں

دوسری جانب ن لیگ کی جانب سے تاحال قومی اسمبلی کا چوہدری نعیم اعجاز کے علاوہ کوئی امیدوار سامنے نہیں آسکا ہے تاہم ایک پیر صاحب سیاسی چلہ کاٹنے کے چکر میں شف شف کر کے ٹکٹ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں تاہم اس حلقہ میں چوہدری نثار کی راہ میں روڑے اتکانے کے لیے ن لیگی قیادت کسی حد تک جا سکتی ہے مری کی طرف سے میاں نواز شریف کی ٹھنڈی سیاست کی جیت ہوگی یا پھر تحریک انصاف کے درپردہ حمائیت یافتہ چوہدری نثار کو کامیابی ملے گی اسکے لیے الیکشن کا ہونا ضروری ہے تاہم شنید ہے کہ الیکشن کی ٹرین آگے کو جا سکتی ہے دیکھتے ہیں کہ جیت کس کی ہوتی ہے عدالتی حکم کی یا پھر سیاسی ہیر پھیر کرنیوالوں کی اس کے لیے چند ماہ کا انتظار کرنا ہوگا لیکن ایک دعا ہے کہ جیت اس کی ہو جو عوام کے لیے سوچے وہ چاہے نواز شریف ہو زرداری یا عمران خان یا کوئی زید بکر لیکن اس بار تاریخ بدلے گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں