columns 263

لیول پلینگ فیلڈ

8 فروری کو پاکستان میں نئے پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں ان انتخابات کا جیسے ہی بغل بجا تو کچھ جماعتوں کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آنا شروع ہو گیا کہ ہمیں لیول پلینگ فیلڈ دی جائے یہ لیول پلینگ فیلڈ ہے کیا وہ اس مطالبے کے ذریعے کیا چیز مانگ رہے ہیں قارئین اصل میں ان کا مطالبہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر مواقع مہیا کیے جاہیں کسی محکمے یا فرد کی کوئی بھی چھوٹی یا بڑی جماعت پسندیدہ نہ ہو تھوڑی یا زیادہ ووٹ زیادہ تابعداری یا خودداری کی بنا پر اسے رعایت نہ دی جائے جس کی بنا پر شکوک وشبہات پیدا ہوں اور آگے چل کر انتخابات ہی متنازع بن جائیں اور1977ء والی پوزیشن بن جائے یا کم از کم 2014 ء والی پوزیشن سامنے آئے کہ روزانہ جلسے جلوس شروع ہو جاہیں اور ملک کی معیشت کی رہتی کسر بھی پوری ہو جائے چلیں پہلے میں آپ کو لیول پلینگ فیلڈ کی ایک جھلک ماضی میں دیکھا دوں

ہندوستان پر انگریز حکومت کر رہے تھے تقسم ہند کا مشروط فیصلہ ہو چکا تھا کہ اگر مسلم لیگ مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو پاکستان بن جائے گا شروع دن سے ہی انگریزوں کا زیادہ جھکاؤ ہندوؤں یعنی کانگریس جماعت کی طرف تھا اور وہ پاکستان کو بنتا دیکھنا پسند بھی نہیں کرتے تھے اس کے باوجود انتخابات منعقد ہوئے اور 1945,6ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مرکزی دستور ساز اسمبلی کی کل 102 میں سے 30 کی 30 مسلم سیٹیں جیت کر مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کے دعویٰ پر مہرتصدیق ثبت کر دی اور ہندوستان کے صوبائی انتخابات میں کل گیارہ صوبوں کی 1585 سیٹوں میں سے مسلم لیگ نے صرف 427 سیٹیں جیتی تھیں لیکن پورے ملک سے مسلم وؤٹوں کا 87 فیصد حاصل کر کے اپنے مطالبے میں جان ڈال دی تھی

مسلم لیگ کو 217 میں سے 195 مسلم سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے حصہ میں آنے والے صوبوں میں سے صرف صوبہ سرحد (کے پی کے) واحد صوبہ تھا جہاں مسلم لیگ ہار گئی تھی اور اسے 36 میں سے صرف 17 مسلم سیٹیں ہی مل سکی تھیں جہاں بعد میں ریفرنڈم کروانا پڑا کہ یہاں کے عوام پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا انڈیا میں تو(کے پی کے) کے تقریباً 85 فیصد غیور اور باغیرت عوام نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور پاکستان بن گیا یہ کیسے ممکن بنا ہوا یہ ایسے ممکن ہوا کہ مسلم لیگ کو پورے ہندوستان میں لیول پلینگ فیلڈ کے مواقع ملا اس تمہید سے بتانا مقصود یہ تھا کہ ہم نے یہ ملک بھی جمہوری انداز میں ہی حاصل کیا تھا قائد اعظم کوئی لاؤ لشکر لے کر نہیں نکلے تھے نہ کوئی دھرنا نہ جلاؤ گھیراؤ بلکہ ووٹ کی طاقت سے یہ ملک حاصل ہوا لیکن اس سے بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا بلکہ جب آزادی ملی تو ہم نے اس کے بر عکس کیا

الیکشن کی طرف گئے ہی نہیں خود ہی نامزدگیاں کرتے رہے پھر ان کی حکومت توڑتے رہے اور کبھی عدم برداشت کی انتہا پر مارشل لاء لگاتے رہے اور پہلے باضابطہ لیکن (پہلے و آخری آزادانہ و شفاف) الیکشن 1971 ء میں کروا کر اس کے نتائج کو بھی تسلیم نہ کر کے ملک کو دو ٹکڑے کر دیا لیکن سبق پھر بھی نہ سیکھا ملک کے دوسرے باضابط الیکشن میں اپنی حکومت کے قائم ودائم رکھنے کے لیے دھاندلی کر ڈالی جس کو بنیاد بنا کر گیارہ سال ہمارے اوپر مرد مومن ومرد حق نے حکومت کی جس کا خمیازہ دہشت گردی کی لعنت اور (احسان فراموش قوم افغان) افغان پناہی گزینوں کا بوجھ برداشت کر کے عوام نے بھگتا بھی اور ابھی تک بھگت بھی رہے ہیں 1988 ء کے بعد پھر ہماری سیاسی نورا کشتی شروع ہو گئی جس کی بنا پر ہمارا ملک ترقی نہ کر سکا بلکہ جو پہلے ہماری اکانومی کی قوت تھی وہ بھی آہستہ آہستہ گرتی چلی گئی اور ملک کا خسارہ پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور دیگر ممالک سے امداد کا سہارا لینا پڑتا رہا یہ وہی ملک تھا جو آج سے 40 سال پہلے دوسرے ملکوں کو قرض دیا کرتا تھا

لیکن آج اس کی حالت ایک بھکاری سے کم نہیں ہے جس کا خود اقرار ملک کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف صاحب نے کیا کہ جب بھی دورے پر کسی ملک میں جاتے ہیں تو وہ حقارت سے بڑی جبھتی آنکھوں سے دیکھتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے بھیک مانگنے کے لیے آ رہے ہیں جب تک یہ نورا کشتی چلتی رہے گی کوئی ویژن نہیں ہوگا کوئی منشور نہیں ہوگا اس وقت تک ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکیں گے اور اج جو الیکشن ہو رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں دو گروپ بن چکے ہیں ایک گروپ کو مکمل آزادی ہے اس کا سربراہ سزا کاٹتے کاٹتے علاج کے لیے باہر گیا واپس جیل جانا چاہیے تھے ضابطے کے تحت لیکن وہ مینار پاکستان کے سائے میں سیاسی مہم چلا رہا ہے اور دنوں کے اندر تمام کیس ختم سسلین مافیا سے صادق و امین بن گے الغرض یہ گروپ جو چاہے کرے کوئی پوچھنے والا نہیں

اور دوسرے گروپ کی نہ پوچھیے ایک حادثے کو بنیاد بنا کر پورے ملک میں ان کو دس آدمی بھی اکٹھے کرنے کی اجازت نہیں مقدمات چھاپے گرفتاریاں کبھی ان کا انتخابی نشان تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بحال پھر اس پر بین لگ جاتا ہے اس خوف کے عالم میں وہ اپنی کمپئین کیسے چلائیں گے اگر آزادانہ کمپئین نہیں چلا سکتے تو لیول پلینگ فیلڈ تو نہ ہوئی ناں یہ ان کے ساتھ عجیب کھیل کھیلا جا رہا ہے اگر بالفرض محال ان کو اجازت نہیں دینی ان پر ایسی ہی سختیاں برقرار رکھنی ہیں تو بہتر تھا پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر بین ہی کر دیتے تاکہ یہ تماشا تو ختم ہوتا اور آپ کا دعویٰ باقی سب کے لیے سچ ثابت ہوتا کہ سب کو لیول پلینگ فیلڈ دی گئی ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں