199

قمرالاسلام راجہ کی چک بیلی خان میں انٹری

چک بیلی خان کی سیاست طویل عرصہ تک ایک ہی خاندان کے کنٹرول میں رہی الیکشن 2018میں تبدیلی کی لہر کو دیکھتے ہوئے اس علاقے لوگوں نے بھی پی ٹی آئی کے غلام سرور خان کو ووٹ دے کر گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے حکمرانی کرنے والے خاندان سے جان چھڑا لی لیکن اس علاقے کی برادریوں اور مزاج سے مکمل واقفیت نہ رکھنے کی وجہ سے غلام سرور خان کو بھی اس حلقہ میں معاونین پر انحصار کرنا پڑا ڈیڑھ سو سال تک ایک ہی خاندان کے تسلط میں پلنے والے معاونین چھوٹے قد پر بڑا بوجھ سنبھال نہ سکے اور وہی طرز سیاست اپنایا جو چوہدری نثار علی خان کے معاونین استعمال کرتے تھے کیونکہ یہ بھی انھی کے ہم پلہ تھے لہٰذا سوچ کا معیار بھی یہی ہونا تھا وفاقی وزیر غلام سرور خان کی جانب سے بڑے منصوبے دینے کے باوجود پارٹی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی گئی یہاں تک کہ گلی محلوں تک غلام سرور خان کی ترجمانی کرنے کے لئے پارٹی تنظیموں سے ہٹ کر بنایا جانے والا غیر معیاری ڈھانچہ بھی ختم ہونا شروع ہو گیا پی ٹی آئی کے کارکنوں کیلئے واپسی کی راہ بھی ختم تھی اور ان کا اپنا انتخاب بھی وہی پرانا طرز سیاست دکھا رہا تھا دوسری جانب کبھی پارٹی نہ بدلنے کا دعویٰ کرنے والے چوہدری نثار کے کارکن بھی گو مگو کی کیفیت میں رہ رہے تھے کبھی وہ چوہدری نثار علی خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے جانے کا خواب دیکھتے کبھی ان کی پی ٹی آئی اور کبھی پیپلز پارٹی میں شمولیت کی امید رکھتے ایک مدت سے ان پارٹیوں کی خامیوں کی رٹ لگانے والے اب اپنے قائد کی ان میں متوقع شمولیت کی بنیاد پر ان پارٹیوں کے خلاف بھی زبان نہ کھولتے دوسری جانب ہر تھوڑے عرصہ بعد چوہدری نثار علی خان انھیں بلوا کر اچھے وقت کی تسلی دے دیتے ایک طرف پی ٹی آئی کے کارکنان غلام سرور خان کے معاونین کے سلوک سے نالاں تھے دوسری جانب نثار علی خان کے ساتھ چلنے والے بھی جھوٹی تسلیوں سے تنگ آ چکے تھے پارٹی میں رہتے ہوئے اپنا مقام برقرار رکھنے کیلئے چوہدری نثار علی خان کے کارکنوں کے سامنے ن لیگ کا متحرک ہونا ضروری تھا لیکن قمرالاسلام راجہ جھٹہ ہتھیال سے چوک پنڈوڑی کے علاقہ تک محدود تھے اس طرح پانچ سال گذرنے کے قریب آئے تو چک بیلی خان شہر اور اس کے مضافاتی علاقہ کے لوگوں نے از خود قمرالاسلام راجہ سے رابطے شروع کر دئیے اس طرح قمرالاسلام راجہ نے چک بیلی خان میں پہلے انٹری دیتے ہوئے چوہدری اسد علی عرف سیکرٹری کے گھر کارنر میٹنگ رکھ عوامی رابطے کا آ غاز کر دیا پہلی میٹنگ اس زوردار طریقے سے ہوئی جو حال ہی میں ہونے والے غلام سرور خان کے جلسہ کو مات دے گئی اس طرح جہاں مجبوری کی خاطر کوئی فیصلہ نہ کر پانے والے ن لیگیوں کو امید کی کرن نظر آئی وہاں پی ٹی آئی اور چوہدری نثار علی خان سے نالاں لوگوں کو بھی ایک نیا پلیٹ فارم میسر آ گیا اس طرح چوہدری نثار علی خان کی پہلے سے ڈوبی ہوئے کشتی جسے وفاقی وزیر جناب غلام سرور خان کے
ساتھیوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دوبارہ آب رواں پر چلنے کی امید کی جا رہی تھی وہ شایداب مکمل طور پر صفحہ ہستی مٹ جائے گی دوسری جانب اگر پی ٹی آئی نے بھی کرنل(ر) اجمل صابر راجہ جیسے قد آور سیاستدان کو متحرک کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو قمرالاسلام ان کیلئے ایک خطرے کی گھنٹی کے طور پر سامنے آ گئے ہیں یہاں اس بات کو واضع کرنا ضروری ہے کہ چوہدری اسد علی عرف سیکرٹری نامی شخص جس کے گھر قمرالاسلام راجہ کی میٹنگ رکھی گئی ہے یہ شخص غلام سرور خان کے سابق فوکل پرسن کا حقیقی کزن ہے اور یہ شخص الیکشن 2018 میں غلام سرور خان کے الیکشن کی بنیاد رکھنے والوں میں سے ایک ہے ہماری اطلاعات کے مطابق وفاقی وزیر جناب غلام سرور خان نے جب اپنے معاونین سے قمرالاسلام راجہ کی میٹنگ کروانے والے لوگوں کے متعلق پوچھا تو انھوں نے عدم واقفیت کا کہہ دیا حالانکہ یہ لوگ انھیں معاونین سے رابطہ رکھتے تھے اور ان ہی کی وجہ سے الگ ہو کر ن لیگ میں شامل ہوئے ہیں حاصل تحریر یہی ہے کہ موجودہ حالات میں عوام چوہدری نثار علی خان اور غلام سرور خان دونوں سے نالاں نظر آ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ قمرالاسلام راجہ اور کرنل اجمل صابر راجہ کو متبادل کی شکل میں تلاش کر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں