columns 63

فلسطین کی مزاحمتی تحریک پر ایک نظر

صہیونی ریاست کے قیام کے لیے جب سے عملی اقدامات شروع ہوئے ہیں اسی وقت سے فلسطینیوں میں اضطراب پیدا ہو گیا تھا اور وہ گاہ بگاہے احتجاج بھی کرتے رہے لیکن اس میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب اس احتجاج کی قیادت عزالدین القسام نے شروع کی اگست 1929 میں جب بالفور نے مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کیا تو فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا جس میں تقریباً 250 یہودی اور عرب دیوار براق (دیوار گریہ) پر جان سے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے جو بغاوت براق کے نام سے جانا جاتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عزالدین القسام ہیں کون حریت کا پیکر مزاحمتی تحریک فلسطین کے بانی عزالدین عبد القدر بن مصطفیٰ بن یوسف بن محمد القسام ایک شامی مسلمان مبلغ تھے وہ 19دسمبر 1882 کوشام کے شہر جبلہ میں پیدا ہوئے القسام نے مصر کی الازہر یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد عثمانی حکومت کے آخری سالوں میں شام میں اپنے آبائی شہر جبلہ میں اسلامی احیاء پسند مبلغ بن گئے

وہ اطالوی حکمرانی کے خلاف لیبیا کی مزاحمت کا ایک فعال حامی بن گے لیبیا کے باشندوں کی مدد کے لیے فنڈز اور جنگجو اکٹھے کیے اور ان کے لیے ترانے لکھے بعد میں وہ 1919-20 میں شمالی شام میں فرانسیسی افواج کے خلاف لڑنے کے لیے ابراہیم ہنانو کے ساتھ اتحاد کیا اور اپنے گروپ کی قیادت کی شام میں کامیابی نہ ملنے پر وہ فلسطین ہجرت کر گئے جہاں ایک مسلم وقف (مذہبی اوقاف) میں ملازمت اختیار کر لی 1928 سے اپنی موت تک القسام نے حیفہ میں ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن (YMMA) کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں اور روایتی فلسطینی رہنماؤں کے برعکس القسام نے دونوں برطانوی حکام اور صہیونی آبادکاری کے خلاف لڑنے کو ترجیح دی مسلم وقف کی ملازمت کے دوران انہوں نے فلسطینی عرب کسانوں کی بدحالی و کسمپرسی دیکھ کر دل برداشتہ ھوئے جو یہودیوں اور برطانوی لوگوں کے مزارعین کے طور پر کام کرتے تھے 1930 کی دہائی میں انہوں نے ان ہی غریب ونادار کسانوں کو مزاحمت پر آمادہ کیا اور برطانوی اور یہودی اہداف کے خلاف حملے شروع کیے

القسام نے اپنے آدمیوں کو تربیت دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اچھے کردار کو برقرار رکھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے جنگجوؤں کو ضرورت مندوں اور بیمار لوگوں کی مدد کرنی چاہیے اپنے خاندانوں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہیے اور خدا سے باقاعدگی سے دعا کرنی چاہیے انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ خوبیاں نظم و ضبط اور نڈر جنگجو ہونے کے لیے شرط ھیں 1935 تک القسام نے کئی سو آدمیوں کو بھرتی کیا جن کی تعداد 200 سے 800 تک تھی 8 نومبر کو ایک فلسطینی پولیس کانسٹیبل موشے روزن فیلڈ کی لاش ملی اس کے قتل کی ذمیداری القسام پر ڈال دی گئی وہ روپوش ہو گئے آخر کار القسام کو نابلس کے پھاڑوں میں ایک غار میں گھیر لیا اس کے بعد ہونے والی طویل لڑائی میں القسام اور اس کے تینوں ساتھی مارے گئے اس منظر کو ایک امریکی مؤرخ عبداللہ شیلیفر نے کچھ یوں بیان کیا ہے اس کے آخری موقف نے اس وقت فلسطینیوں کو جوش دلایا جب اس کو ساتھیوں سمیت گھیر لیا گیا تو اس نے ہتھیار ڈالنے کی بجائے مقابلے کو ترجیح دی اس لیے اس نے گولی چلا دی اور مقابلے میں شہید ھو گے اس کی موت کے انداز نے فلسطینی عوام کو بے چین کر دیا اس کا جنازہ فلسطین میں جمع ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا سیاسی اجتماع تھا اس طرح یہ مسلمانوں کا خیرخواہ فلسطین کی آزادی وخود مختاری کا پروردہ 20 نومبر 1935 کو شہادت کا رتبہ پا کر
آزادی وخود مختاری مزاحمت کا درس دے گیا

یہاں پر مزاحمت کا پہلا باب بند ھوا کیونکہ اس کے کچھ عرصہ بعد حالات نے کروٹ بدل لی تھی 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی آزاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کے ساتھ ہی فلسطینی ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہ ہوا عربوں نے تقسیم کو نامنظور کر دیا اور مصر اردن شام لبنان عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کر دیا تاہم وہ اسے ختم کرنے میں ناکام رہے بلکہ اس حملے کی وجہ سے یہودی ریاست کے رقبے میں اور اضافہ ہو گیا کیونکہ1949 میں مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا جو 1967 کی جنگ تک رھا ساتھ ہی ساتھ 1950 میں اردن نے غرب اردن دریائے اردن کے مغربی کنارے کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا جس میں جیریکو بیت لحم ہیبرون نابلس اور مشرقی یروشلم کے شہر بھی شامل تھے جو 1988 تک اس کے زیر کنٹرول نہیں بلکہ اردن میں ضم رہے اس لیے اس دور میں مزاحمت کم نظر آتی ہے فلسطین میں مزاحمت کا دوسرا دور فلسطینی علاقوں کا مصر اور اردن سے علیحدگی اور اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے بعد اور حماس کے قیام سے شروع ھوتا ہے

حماس یا تحریک مزاحمت اسلامیہ فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم ہے جس کی بنیاد 1987 میں شیخ احمد یاسین نے عبد العزیز الرنتیسی کے ساتھ مل کر رکھی شیخ احمد یاسین دوران تعلیم اخوان المسلمین کے قریب رہے وہ ان کے نظریات سے بہت متاثر تھے ابتدا میں حماس کا دو بنیادی مقصد تھے جن میں سے ایک فلسطینیوں کے لیے معاشرتی بہبود کے پروگرام چلانا اور دوسرا اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا تھا۔ اس تنظیم کا ماننا تھا کہ اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد شرعی لحاظ سے واجب ہوچکی ہے اور مسئلہ فلسطین کے حل کا یہی واحد راستہ ہے مسلح جدوجہد کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ (عزالدین عبدالقدر القسام کے نام پر ہے جن کا تذکرہ شروع میں کیا ہے) 2004 میں حماس کو شدید نقصان اس وقت پہنچا جب مارچ اور اپریل کے مہینوں میں حماس کے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین اور اُن کے جانشین عبدالعزیز الرانتیسی کو غزہ میں اسرائیلی میزائل حملوں کے ذریعے قتل کیا گیا 2005

کے بعد حماس نے فلسطینی سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی اگلے ہی برس یعنی سنہ 2006 میں حماس نے فلسطین کے قانون ساز انتخابات میں فتح سمیٹی اور سنہ 2007 میں اس وقت کے صدر محمود عباس کی فتح تحریک پر سبقت لیتے ہوئے غزہ پر اپنا سیاسی کنٹرول مستحکم کیا حماس کی مزاحمتی تاریخ پر اک نظر فروری اور مارچ 1996 میں بم بنانے کے اپنے ایک ماہر کارکن یحییٰ ایاش کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے بسوں میں متعدد خودکش دھماکے کیے گئے جن میں 60 کے قریب اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے 2000 کے بعد اس کی مزاحمت کا دوسرا دور شروع ہو وقفہ وقفہ کے ساتھ حماس کے راکٹ حملے جاری رہے ان حملوں کو روکنے کے لیے اسرائیل نے 2007، 2008، 2012 میں سرچ آپریشن کیا جس کی زد میں آ کر 1500 فلسطینی شہید ھوئے 2014 میں سرچ آپریشن کا بھانہ بنا کر 2250 فلسطینی شہید کر دیے گئے اور جواباً 67 اسرائیلی مارے گے

حالیہ دنوں میں حماس کا حملہ اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ ہے جسمیں اس کا ھزار سے زائد جانی نقصان ھوا اور ساتھ ساتھ اس کے کئی سینیئر و جونیئر فوجی اغوا کر لیے گئے ہیں اس کے ڈیفنس سسٹم سکیورٹی ھائی الرٹ کا پول بھی کھل گیا ہے جس پر وہ سیخ پا ہو کر رہ گیا ہے اور غزہ کی مکمل ناکہ بندی کر کے بلیک آؤٹ کر دیا تھا اور فاسفورس بموں سے نہتے فلسطینیوں پر بمباری کر رہا ہے اب تو اس نے ہسپتالوں پر بھی بمباری کرنی شروع کردی ہے جو مصدقہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جس سے سینکڑوں فلسطینی اپنی جان کی بازی ہار گئے ہیں اور مزید ھار رہے ہیں
ان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں کھانے پینے کی اشیاء تک ناپید ہو رہی ہیں اور ان کی حمایت میں پوری دنیا سے کوئی موثر ترین آواز بلند نہیں ہو رہی ادھر کینیڈا میں ایک سکھ مارا جاتا ہے تو ساری دنیا بھارت کی مزمت میں اکٹھی ھو جاتی ہے دوسروں کی کیا بات کی جائے جسد واحد کی خوش خبری سننے والی اسلامی دنیا بھی ڈھٹائی کے ساتھ خاموش ہے ان کی اخلاقی مدد کے لیے بھی تیار نہیں اور بس عوام الناس کا مختصر سا شوروغل ہے اللہ تعالیٰ ان کی مدد و نصرت فرمائے آمین الامان و الحفیظ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں