غزل

مر جائیں گے تو کسی کے لب پہ نام ہو گا
ماتم ہو گا کہیں، کہیں شہنائیوں کا اہتمام ہو گا
کوئی روئے گا یاد کر کے وفائیں
لبوں پہ کسی کے خوشیوں کا جام ہو گا
دولت اپنی ہاتھوں میں لے کہ ڈھونڈے گا کوئی
نہ ملیں گے ہم، قیمت ہماری نہ کوئی دام ہو گا
کم ہو گا جب شبابِ الفت کسی پر عاؔمر
کر کے یاد تڑپے گا، معاملہ یہ سر عام ہو گا

اپنا تبصرہ بھیجیں