81

غریب ملک میں افسروں کی مراعات

میڈیا زرائع کے مطابق پنجاب میں حکومت نے اعلی افسران کے لیے 200 نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری دے دی۔ خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ پنجاب حکومت نے ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کے لیے ڈبل کیبن ڈالے کی منظوری دی ہے اور ہر ضلع کے ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر کے لیے 1300 سی سی گاڑیوں کی منظوری دی ہے، اسی طرح تمام اضلاع کے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 1600 سی سی کرولا کی منظوری دی ہے اور ان تمام گاڑیوں کے لیے2ارب 33 کروڑ روپے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ کتنی بے حسی ہے کہ پاکستان میں افسر شاہی پہلے ہی کیا کم تھی کہ افسران کومزید مراعات دینے کی کوشش کی جا رہی ہے پہلے ان افسران کے پاس کیا گاڑیاں نہیں ہوں گی، کیا یہ پیدل دفاتر کو آتے جاتے ہیں؟ پہلے بھی یقینا ان کے پاس گاڑیاں ہوں گی لیکن وہ گاڑیاں تھوڑی پرانی ہو گئی ہوں گی یا ان گاڑیوں میں انہیں مزہ نہیں آتا ہوگا تو ان کے لیے نئی گاڑیاں لینے کی منظوری دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں افسر شاہی تو ابتدا سے ہی ہے اور ملک کو حقیقت میں افسر ہی چلاتے ہیں جسے بیوروکریسی کہا جاتا ہے یہی بیوروکریسی ملک کو چلاتی ہے سیاستدان تو آتے جاتے رہتے ہیں، پانچ سال کے لیے آئے اپنا وقت پورا کیا اور چلے گئے لیکن افسر تو 60 سال کی عمر تک اپنے عہدوں پر برقرار رہتے ہیں اور جیسے جیسے ان کی عمر بڑھتی جاتی ہے ان کی ترقیاں ہوتی جاتی ہے اور اتنے ہی زیادہ ان کے قدم جمتے رہتے ہیں تو اس لیے ملک تو حقیقت میں وہی چلاتے ہیں سیاست دانوں کو کیا معلوم ہے افسر ان جو کہتے ہیں وہ اسی طرح کر دیتے ہیں لیکن سیاستدان افسروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے لیے انہیں نوازتے بھی رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں افسروں کو بہت زیادہ مراعات دی جاتی ہیں، انہیں مفت بجلی، مفت گاڑیاں اور مفت پٹرول دیا جاتا ہے، اسی طرح کئی افسروں کو ملازمین دیے جاتے ہیں، کئی افسروں کو سیکیورٹی گارڈز اور بنگلے بھی ملتے ہیں۔ٍپھر ان بنگلوں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی گارڈ اور ان کے باغیچوں میں کام کرنے کے لیے مالی اور کچن میں کام کرنے کے لیے خانسامہ اور کئی طرح کے ملازمین دیے جاتے ہیں جو صرف اور صرف ملکی خزانے پر بوجھ ہیں۔ ہماری حکومتیں افسروں کو یہ مراعات دیتی ہیں اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں کیونکہ یہ پیسہ ہمارے حکمرانوں کی جیبوں سے نہیں آتاعوام کا پیسہ ہے اس لیے مفت کا مال سمجھ کر خوب لوٹا جا رہا ہے۔
ادھر ہمارے سیاستدان روتے ہیں کہ ملکی خزانہ خالی ہے آئی ایم ایف نہیں مان رہا اور دوسری طرف ایسی عیاشیاں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، ہم آئی ایم ایف سے قرض نہ لیں تو ہمارے لیے ملازمین کو تنخواہیں دینا مشکل ہو جاتا ہے، ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف ملکی خزانے کو کتنی بے رحمی کے ساتھ ضائع بھی کیا جا رہا ہے۔ عوام کو صبر اور کفایت شعاری کی تلقین کی جاتی ہے اور خود ان کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں بلکہ دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔
افسروں کو اتنی زیادہ مراعات دینے کی سمجھ نہیں آتی ہے ان کو ایک تو تنخواہیں بھی لاکھوں میں دی جاتی ہیں اس کے باوجود انہیں مفت بجلی ، مفت پیٹرول، مفت گاڑیاں اور ملازمین دیے جاتے ہیں، دوسری طرف ایک عام آدمی جو 20، 25 یا 30 ہزار روپیہ تنخواہ لے رہا ہے وہ اپنے جیب سے بجلی کے بل بھی ادا کرتا ہے، پٹرول بھی خریدتا ہے، گاڑیوں کے کرائے بھی خود سے لگاتا ہے سب کچھ اپنے جیب سے کرتا
ہے تو لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والے اپنی جیب سے کیوں نہیں کر سکتے؟ انہیں تو گاڑی تک نہیں ملنی چاہییں جتنی ان کی تنخواہیں ہیں یہ تو اپنی تنخواہ سے بھی گاڑی خرید سکتے ہیں، بڑی گاڑیاں نہ خریدیں جتنی ان کی تنخواہیں ہیں ان کے مطابق اپنے لیے گاڑیاں لے لیں۔ بڑی گاڑیاں بھی خرید سکتے ہیں لیکن اگر نہیں بھی خرید سکتے تو چھوٹی گاڑیاں لے لیں اپنا ضرورت پوری کریں عیاشیاں کرنا ضروری تو نہیں ہوتا۔ اگر عیاشیاں کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو چھوڑیں ملازمت، کاروبار کریں اور اس پہ عیاشیاں کریں جب عوام کے لیے کام کر رہے ہیں تو پھر عوام کا خیال بھی کریں۔ عوام کے کام تو انہوں نے کرنے نہیں ہوتے، صرف عوام کے پیسے پر عیاشیاں کرنی ہوتی ہیں یہی ہمارے ملک میں چل رہا ہے۔ یہ تمام حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے چاہے وہ موجودہ حکومت ہو یا گزشتہ کوئی بھی حکومت ہو سب نے اسی طرح افسروں کو عیاشیاں کروائیں، انہیں خوب مراعات دیں اور ملکی خزانے پر بوجھ ڈالا جس کی وجہ سے ملک آج ان حالات تک پہنچ چکا ہے کہ قرض نہ لیں تو گزارا نہیں ہوتا۔
غریب عوام پس رہے ہیں، مر رہے ہیں، بھوکے ہیں انہیں ریلیف دینے کی بجائے ہمارے حکمران ان پر مزید ٹیکس عائد کر رہے ہیں اور خود عیاشیاں کر رہے ہیں اور ساتھ افسروں کو بھی عیاشیاں کروا رہے ہیں۔ عوام ٹیکس دے رہے ہیں اور افسر اور وزراء عیاشیاں کر رہے ہیں جو کسی ترقی یافتہ ملک میں بھی قابل برداشت نہیں سمجھا جاتا چہ جائے کہ ایک غریب ملک میں جس کی معیشت ہی قرضوں پر چل رہی ہو اس میں ایسا روا رکھا جا رہا ہو۔

ضیاء الرحمن ضیاءؔ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں