columns 76

خطے میں نئی جنگ کا خطرہ

جنگ عظیم اوّل1914-17کے بعد مقتدر عیسائی عالمی قوتوں نے طے کیا کہ وہ آئندہ آپس میں جنگ نہیں لڑیں گی انہوں نے باہم تنازعات کونمٹا نے کے لئے ایک بین الاقوامی ادارہ تشکیل دیا جنگی تباہ کاریوں کے اثرات سے نمٹنے اور تعمیر نو کے لئے عالمی بنک بھی قائم کیا جنگ عظیم اوّل میں عیسائی قوتوں نے مسلمانوں کی سیاسی عسکری اور تہذیبی عظمت کے نشان خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا تھا برا عظموں تک پھیلی ہوئی خلافت عثمانیہ سمٹ کر ترکی تک محدود کر دی گئی تھی قبلہ اوّل پر بھی صلیبیوں نے قبصہ کر لیا تھا اس کے بعد شدت سے محسوس کیا گیا کہ اب عیسائی اقوام کے درمیان جنگیں نہیں ہونی چاہئیں یہ فیصلہ کر لیا گیا اور عمل درآمد بھی شروع ہو گیا لیکن یہ زیادہ دیر تک بار آور ثابت نہ ہو سکا صنعتی ترقی اور تیار مال کی کھپت کے لئے بڑی منڈیوں تک رسائی اور زیادہ سے زیادہ نفع اندوزی کی خواہش نے پھر دست وگریبان کر دیا

عیسائی ملکوں نے کھلم کھلا ایک دوسرے پر تباہی و بربادی نازل کی اور دوسری جنگ عظیم 1939-45کے درمیان برطانیہ عظمی اور دیگر ریجنل پاورز کا دھڑن تختہ ہو گیا امریکہ نے برطانیہ عظمیٰ کی جگہ لے لی اور سوویت یونین ایک آہنی قوت کے طور پر سامنے آگیا سرمایہ دارانہ اقوام نے امریکی پرچم تلے جبکہ اشتراکی فکر وعمل کی اقوام اشترکی روس کے پرچم تلے جمع ہو گئیں دو طاقتی عالمی نظام قائم ہوا چین اس بکھیڑے سے الگ تھلگ اپنی ہی دھن میں مگن رہا دوطاقتی نظام میں اسرائیل مشرقی وسطیٰ میں امریکی ویور پی ممالک کے مفادات کے نگران کے طور پر اُبھراعرب ویہود کے درمیان معرکہ آرائی شروع ہو گئی دوسری طرف جنوبی ایشیا میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مسلہ کشمیر کھڑا ہوا یہ اسی سرپرستی کا نتیجہ ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں اسرائیل ایک قوی جتھہ بدمعاش ریاست کے طور پر فلسطینیوں اور دیگر عرب ریاستوں پرقہربن کر ٹوٹ رہا ہے

غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ انسانی المیے کا باعث نہیں ہے؟ ساٹھ کلومیڑلمبی او ر بائیس کلو میڑ چوڑی پٹی کو جہنم زاربنا دیا گیا ہے امریکی ودیگر عیسائی ممالک کی سرپرستی اور عملی امداد کے ساتھ اسرائیل قہر خدا وندی بنا ہوا ہے دوسری طرف ہندو ستان نے کشمیر یوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے تقریباً ایک لاکھ جانوں کی قربانی دینے کے باوجودمسئلہ حل نہیں ہورہا ہے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم رکھا جارہا ہے مسئلہ کشمیر کے باعث ہندوستان اور پاکستان 77 برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف سینہ سپرہیں اربوں کھربوں کا اسلحہ بھی ہے پھر دونوں ممالک نے ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کر لی ہے یہ ایٹمی صلاحیت کھلے عام جنگی مقاصد اور ایک دوسرے کو بربادکرنے کے عزم صمیم کااظہار ہے جبکہ دونوں ممالک کے کروڑوں انسان خط غربت سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں امریکہ نوے کی دہائی میں اشتراکی سلطنت کے الہدام کے بعد بزعم خود سپریم عالمی طاقت کے منصب جلیلہ پر فائز ہے اس نے مشرقی وسطیٰ میں اپنی حیران کن عسکری کے قوت کے اظہار کے بعدخطے کا جغرافیہ دوبارہ ترتیب دینے کا بھی اعلان کیا تھا

لیکن بیس سال تک ہند وکش کے پہاڑوں سے برسرپیکار رہنے کے بعد طالبان کے ہاتھوں شکست کھا کرواپسی نے اس کی رہی سہی دہشت کا بھی خاتمہ کردیا اس دوران چین ایک ہیبت ناک معاشی طاقت کے طور پر سامنے آچکا ہے امریکہ ایک سپر طاقت نہیں ہے لیکن اسے ا بھی تک اصرار ہے کہ وہ یک وتنہا عالمی طاقت ہے اس مقصد کے لئے وہ جہاں جہاں موقع ملتا ہے وہاں جنگ کے شعلے بھڑکا دیتا ہے اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہے کہ جنگ یورپی زمین پر لڑی جاتی ہے یا مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اسے صرف اور صرف اپنی چودہراہٹ دکھانے اور قائم
رکھنے کی فکر ہے روس کو یوکرائن میں الجھایااور یورپی سر زمین ایک بڑی جنگ میں الجھائی جاچکی ہے امریکی یورپی اسلحہ اس جنگ میں ایند ھن کا کام کررہا ہے غزہ میں اسرائیل امریکی شہ پر فلسطینیوں وعربوں پرقہر خدا وندی بن چکاہے ایرانی جنرل قاسم سیلمانی کی برسی کے موقع پر اُن کی قبر کے قریب دود ھماکوں میں دوسوسے زائد افرادکی ہلاکت نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ یہ علاقہ بھی میدان جنگ بننے جارہا ہے اور پاکستان پہلے ہی ففتھجنریشن وار کی زدمیں ہے گویا امریکہ جنگی جنون کو پھیلاکر نہ صرف اپنے اسلحے کی فروخت بڑھاکر اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دے رہا ہے بلکہ اپنی چودھرا ہٹ کو بھی مستحکم کر نے کی پالیسی پر عمل پیر اہے

ہمیں ایک بات ہر گز نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارے جو اثاثیکسی طور بھی مغرب کی صلیبی وصہیونی قوتوں کے لئے قابل قبول نہیں ہیں وہ برملا اس بات کا اعلان بھی کرتے رہے ہیں ہم امریکی اتحادی کے طور پر فرنٹ لائن ریاست کے طور پر افغان جنگ اور اتحادی جنگ میں اپنا کردار نبھاتے رہے ہیں ان جنگوں نے بحثیت مجموعی ہمارے قومی مفادات کو مجروح کیا ہے ہم جن افغانوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے ساتھ شریک جنگ رہے وہ ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمارے دشمن بن چکے ہیں ہمارے خلاف دہشت گردی کا مرکز افغانستان ہے پہلے یہ سمجھتے تھے کہ امریکی سر پرستی میں ہندوستان افغانستان میں بیٹھ کر ہمارے خلاف برسر جنگ ہے اور جب طالبان کی حکومت ہوگی توہماری یہ سرحد یں محفوظ ہو جائیں گی

دوسال ہونے کوآئے ہیں طالبان کی حکمرانی میں بھی ٹی ٹی پی ہمارے خلاف زیادہ شدت سے جنگ ہے طالبان کا افغانستان بھی ہمارا دوست نہیں بن سکا ذرا سوچئے کہ یہ سفارتی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے ہماری معیشت اور سیاست پہلے ہی تار تار ہو چکی ہے آٹھ فروری کے انتخابات پر ابھی تک نا امیدی اور مایوسی کے گہرے بادل طاری ہیں آرمی چیف کے طویل دورہ امریکہ نے بھی معاملات پر شکوک وشبہات کی دہری تہڈال دی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ نہ صرف ہم بلکہ خطہ ایک نئے بحران کی طرف بڑھ رہاہے عالمی اقتصادی بد حالی روس یو کرئن جنگ عرب ویہود اور فلسطین واسرائیل جنگ کے ساتھ ساتھ یہاں ایک نئی علاقائی جنگ کی راہیں ہموار ہو چکی ہیں امریکی مفادات کے تحت اس خطے میں بھی ایک نئی جنگ کا جہنم دہکایا جانے والا ہے ایسے حالات میں سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہم بھی نظر آرہے ہیں اللہ خیر کرے آمین۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں