جمہوریت کی نرسری کو پھلنے پھولنے دو/ عبدالجبار چودھری

گذشتہ دنوں لاہور میں ایک مقامی سکول کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا کہ جب میں 80کی دہائی میں امریکہ کے ایک بزنس انسٹیٹیوٹ گریجوایشن کے لیے داخلہ فارم لیا تواس فارم کا ایک کالم یہ تھا کہ تعلیم یا ڈگری حاصل

کرنے کے 10سال بعد اپنے آپ کو کس مقام پر کھڑا دیکھتے ہیں اور کون سے کام کے ذریعے ملک معاشرہ انسانیت کی خدمت کرسیکں گے اس کے جواب میں لکھا گیا کہ میں پبلک آفس کے ذریعے اپنے علم صلاحیت کو بروئے کارلاتے ہوئے کام کرتا دیکھتا ہوں ٹھیک سات سال بعد میں قومی اسمبلی کا الیکشن جیت کر پارلیمان میں بیٹھا دیکھتا ہوں یہ مقصد ،جذبہ، یقین لے کر آج بھی وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی و ترقی اور پاکستان کے مستقبل کا خاکہ کیا ہوگاپہلے ویژن 2010کے کوآرڈینیٹر بنے اورآج کل ویژن 2025کے چئیرمین ہیں گذشتہ تین حکومتیں مکمل طور پر عوامی نمائندوں پر مشتمل گزری ہیں تمام پبلک ؤفس ہولڈرز اور عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب نمائندے تھے ایک بھرپور بلدیاتی نظام 2001سے لے کر 2008تک قائم رہااور چلتا رہاگراس روٹ لیول تک قیادت پبلک آفس کے ذریعے ترقیاتی کام کرواتی رہی ملک کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی نے اس نظام کو شیڈول 6سے نکال کر مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دیابدنیتی پر مبنی صوبوں کو خود مختاری کے نام پر جو زیادتی اس قوم کے ساتھ کی گئی اس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں صوبوں نے بلدیاتی انتخابات کرانا مناسب نہ سمجھا سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر اتنی لیت و لعل سے کام لیا گیا ایک صوبے بلوچستان میں انتخاب ہو چکے اور اس کے نمائندگان ایک سال مدت بھی گزار چکے ہیں دوسر صوبے خیبر پی کے میں بھی پبلک آفس ہولڈر اپنے عہدوں کو سنبھال چکے ہیں باقی دو صوبے جن میں ہمارے ملک کی دو بڑی جمہوری جماعتوں نے حکومتوں کو سنبھال رکھا ہے

نت نئے قوانین اور ناقص منصوبہ بندی کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کو اب تک یعنی دسمبر 2015تک لٹکائے رکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں یہ انہوں نے احسن اقبال کی طرح کے کئی پڑھے لکھے لوگوں کو پبلک آفس کے ذریعے جو ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کو دور رکھا ہوا ہے خود صوبائی حکومتیں جو بھی منصوبہ بندی کر رہی ہیں سوائے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کے بری طرح کے ناکام ہو رہی ہیں پنجاب حکومت نندی پور پاور پراجیکٹ اس بد انتظامی کی واضح مثال ہے سندھ حکومت کا تھر میں کوئلے کے ذریعے بجلی بنانے کا منصوبہ اتنی تاخیر سے مکمل کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے یہ صر ف اور صرف زیادہ سے زیادہ لوگوں کو حکومت کے کاموں میں آنے سے روکنے کا انجام ہے اگر مقامی حکومتوں کو بااختیار بنا کر پبلک آفس امن و امان ،ترقیاتی کام، انتظامی امو ر ان کے حوالے کر دئیے جاتے تو صوبائی حکومتیں بڑے منصوبوں کو وقت دے کران پر توجہ دے کر کامیابیاں حاصل کر سکتیں تھیں \

اب اس بات سے اندازہ کر لیں کہ اشیاء خوردو نوش کی قیمتیں اور ڈینگی کے کنٹرول کے لیے وزیر اعلی خود مارے مارے پھرتے ہیں جو کام ضلع کے ایک اعلی افسر کے تھے وہ ان عوامی نمائندوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے ہیں اب خدا خدا کر کے بلدیاتی انتخابات کے مختلف مراحل کا اعلان کیا جا چکا ہے اور کئی جگہوں میں کاغذات نامزدگی بھی داخل کرائے جا چکے ہیں ہر قسم کے روڑے اٹکانے کے باوجود بلدیاتی انتخابا ت ہوتے نظر آنا شروع ہو گئے ہزاروں پبلک آفس کے ذریعے خدمت کا جذبہ رکھنے والوں نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا اعلان کر دیا ہے و فاقی و صوبائی حکومتوں نے قوانین کے ذریعے بہت کم اختیارات ان بلدیاتی حکومتوں کو دینے کا بندو بست بھی کر لیاہے اس کے باوجودہارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے بنمائندوں کی دوڑ دھوپ شروع ہے میری دانست میں جو پبلک آفس کے ذریعے خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں

ان کو ان بھول بھلیوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہیوہ اپنی یوسی وارڈ کے لیے کو لائحہ عمل رکھتے ہیں اسے عوام کے سامنے کھل کر رکھیں اور عوام بھی ذات، برادری،پسند و ناپسند کے چکروں سے نکل کر حقیقی پبلک آفس کے ذریعے خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کو منتخب کریں بڑی پارٹیوں نے تو بلدیاتی انتخابات کرانے ہی نہیں تھے یہ سب تو پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کی سے ممکن ہوا ہے اس صورت حال میں ان ہی سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ کے حصول کے لیے مارا مارا پھرنا ہے بے وقعت نظر آتا ہے جن لوگوں نے کئی سالوں تک اپنے کارکنوں کو الیکشن ،ممبری ، چئیرمینی سے دور رکھا ہے ان کے پیچھے درخواستیں لے کر بھاگنا کہاں کی عقل مندی ہے علامہ اقبال نے اسی لیے فرمایا تھا
الیکشن ، ممبری، کونسل،صدارت
بنائے خوب آزادی نے پھندے

اپنا تبصرہ بھیجیں