columns 90

تلوار نہیں کردار۔  

  ایک مسلمان ملک کے حکمرانوں کو اسلام اپنی رعایا کے ساتھ رواداری حسن سلوک  نرم روی عدل و انصاف کے ساتھ  برتاؤ کرنے کا پابند کرتا ہے اس میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی فرق و امتیاز روا نہیں رکھتا بلکہ ان کو یہ سبق سکھاتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے دروازے اہل اسلام اور غیر اہل اسلام یہودی عیسائی ہندو سکھ  سب پر کھلے رکھے ہیں ہر ایک کو دنیاوی نعمتوں سے یکساں استفادے کا حق دیتا ہے کسی کو  بھی اس کے ایمان یا کفر کی بنا پر اس نعمت سے استفادہ کے  محروم نہیں کرتا اسی طرح جو حکومت قانون الٰہی پر عمل پیرا ہو اس کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اس سنت الٰہیہ پر چل کر قرآن و حدیث کی روشنی میں عدل پر مبنی ایسا نظام حکومت قائم کرے جس میں مسلم و غیر مسلم کے امتیاز کے بغیر رعایا کے ہر فرد کو بنیادی حقوق اور بنیادی ضروریات زندگی حاصل ہوں خاص کر عدل و انصاف کی فراہمی کیونکہ عدل وانصاف ہی ایک ایسی اکائی ہے

جو معاشروں کے ماحول کا فیصلہ کرتا ہے جس معاشرے کے ہر ہر فرد کو بلا تمیز رنگ ونسل بلا تمیز مذہب بلا تفریق مرتبہ و عہدہ کے عدل وانصاف ان کے دروازے پر ملتا ہے وہ معاشرے امن کا گہوارہ ھوتے ہیں اس معاشرے  میں ہر طرف امن و سلامتی کا بول بالا ھوتا ہے اس معاشرے سے محبت و شفقت  کی خوشبو آتی ہے لوگ ان کی ہر ہر بات کو بڑی ہی تن دہی کے ساتھ سنتے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر وقت کوشاں رہتے ہیں کہ ان کا قرب مل سکے اور وہ بلا خطر ان کے قریب ھوتے چلے جاتے ہیں اور ان کے رنگ میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں تاریخ شاھد ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر اس کے عروج کے زمانہ تک لوگ جہاں کہیں بھی ظلم و زیادتی کا شکار ھوتے وہ وھاں سے نقل مکانی کر کے اسلامی حکومت کی آغوش میں پناہ لیتے کیونکہ اسلام نے صرف مسلمان رعایا کو ہی حقوق نہیں دیے بلکہ غیر مسلم رعایا جن کو فقہ کی اصطلاح میں ذمی کہا جاتا ہے کو بھی برابر کے حقوق سے نوازا ہے

عدل وانصاف میں سب کو ایک ہی پلڑے میں رکھا ہے مسلم اور غیر مسلم کی کوئی رعایت یا فرق نہیں رکھاحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا  ( أنا أحق من أوفي بذمته غیر )  غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے ( بيهقي السنن الکبري ج 8  ص30) اسلام نے صرف بڑے معاملات میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کو برابری نہیں دی بلکہ دیوانی قانون میں بھی مسلم اور غیرمسلم کے درمیان کامل مساوات ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد (اموالھم کاموالنا ) کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی ہے اس باب میں ذمیوں (ذِمّی کے اردو معانی  (فقہ) وہ مشرک یا اہل کتاب جو اسلامی حکومت کی امان میں رہتا ہو)  کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی تلف کر دے تو اس پر ضمان لازم آئے گا

در المختار میں ہے ( و يضمن المسلم قيمة خمره و خنزيره اذا اتلفه ) مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے ( ابن قدامه المغني ج 9  ص 289   حصکفي الدرالمختار  ج 2  ص 223) ذمی کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا اس کو گالی دینا مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے (و يجب کف الاذي عنه و تحرم غيبته کالمسلم) غیر مسلم سے اذیت کو روکنا اسی طرح واجب ہے جس طرح مسلمان سے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے( حصکفي الدرالمختار ج2 ص223    ابن عابدين شامي الدالمحتار  ج 3 ص 273. 274)

آپ نے دیکھا کہ جو چیزیں اسلام میں حرام ہیں لیکن وہ غیر مسلم استعمال کرتے ہیں جیسے شراب اور خنزیر کا گوشت وغیرہ اگر کسی مسلمان نے اس چیز کو بھی نقصان پہنچایا جو کہ غیر مسلم کی ملکیت تھی تو اس کا بھی بدل دینا پڑے گا یہ تھی اسلام کی غیر مسلموں پر شفقت رحمت عدل و انصاف جس کی بنا پر وہ دوڑے چلے آتے تھے اور اسلام کی اغوش میں بنا لے لیتے تھے اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ اسلام تلوار نہیں بلکہ کردار سے پھیلا ہےپاکستان میں غیر مسلموں کی آبادی ساڑھے تین سے چار فیصد ہے اور یہ 75 سالوں سے ہمارے درمیان رہ رہے ہیں ان پچھتر سالوں میں اپنا متاثر کن کردار پیش نہیں کر سکے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام کی آغوش رحمت میں بنا لے لیں

بلکہ ہم نے تو ھمیشہ سیالکوٹ اور جڑانوالہ جیسے واقعات کے ذریعے اپنا کردار کیا پیش کرنا تھا الٹا اسلام  کا ہی چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا میں یہ نہیں کہتا کہ جو مجرم ہے اس کو سزا نہ ملے مجرم کو سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن اس کی سزا کا فیصلہ ملک کا آئین قانون اور عدالتیں کریں نہ کہ بپھرے ھوئے عوام اس ھجوم کے فیصلے کا نقصان ملک اور دین اسلام نے اٹھایا ہے اور مجرم پھر بھی گھومتا رھا اور بے گنا غریب  سو مسیح گھرانے سر چھپانے  کے چھت سے محروم ھوگے کئی ھزار اپنی عبادت گاہوں  سے محروم ھو گے جن کے تحفظ کی ضمانت دین اسلام اور ملکی قانون دونوں دیتے تھے لیکن ھم نے اپنے نفس کی تسکین کے لیے دین اسلام کی تعلیمات کو مسخ کر کے رکھ دیا ھمارے انتظامی ادارے مکمل غیر جانبداری اور شفافیت سے تحقیق کر کے دونوں طرف کے ذمہداروں کو سخت سے سخت سزا دیں تاکہ آئندہ کوئی شخص ایسا فعل کرنے کی جرات نہ کرئے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں