163

تحریک انصاف کا کارکن بڑوں کی لڑائی کا شکار بن گیا

مسعود جیلانی،پنڈی پوسٹ/تھانہ چونترہ کے گاﺅں سروبہ میں دور روز قبل ایک شخص کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا جبکہ دوسرے کو شدید زخمی کر دیا گیا قتل کرنے والا کون تھا پی ٹی آئی کا کارکن اور قتل ہونے والا کون تھا وہ بھی پی ٹی آئی کا ہی کارکن صوبیدار (ر) نور محمد اعوان، دونوں کا مشن ایک ہی تھا پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانے کامگر ایک قاتل اور ایک مقتول کیوں بن گیا یہ بات سوچنے کی ہے ایسا کیوں ہوا میں عوام کے سامنے حقائق رکھ رہا ہوں نتیجہ نکالنا آپ کا کام ہے پچھلے 35 سال سے اس علاقہ پر چوہدری نثار علی خان کی حکومت تھی لوگ چوہدری نثارکے طرز حکمرانی سے تنگ تھے پی ٹی آئی کی پارٹی بننے کے وقت کچھ لوگ اس جماعت میں شامل ہوئے لیکن اس وقت پی ٹی آئی کوئی مقبول جماعت نہ تھی حالیہ تبدیلی کی لہر جب اٹھی تو چوہدری نثار علی خان کی قومیت سے ہی ایک سیاسی ، برادری اور مالی کے اعتبار سے مقبول شخص کرنل(ر) اجمل صابر راجہ پی ٹی آئی کی جانب سے میدان میں آئے سابقہ لوگوں کو بھی ساتھ لیا حلقہ میں گاﺅں گاﺅں جا کر تنظیمیں قائم کیں نیتجہ یہ نکلا کہ الیکشن 2013میں انھوں نے72ہزار ووٹ لے کر چوہدری نثار کے اقتدار کی چولیں ہلا کر رکھ دیںاب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اگلے الیکشن میں چوہدری نثار علی خان کا بوریا بستر گول ہو جائے گا حلقہ میں بیٹھے ہوئے بے وقعت کھڑپینچوں نے موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور جناب غلام سرور خان کو اس حلقہ سے الیکشن کی دعوت دے ڈالی اور حلقہ میں یہ مہم شروع کر دی کہ کرنل(ر) اجمل صابر انتہائی شریف آدمی ہیں لہٰذا ان کے بس کی بات نہیں کہ وہ چوہدری نثار کو شکست دے سکیں جناب غلام سرور خان میدان میں آئے توتجربہ کار کھڑپینچوں نے اپنے پورے پتے استعمال کر کے بات یہاں تک پہنچا دی کہ جناب غلام سرور خان کو اپنے آبائی حلقہ سے باہر یہ ٹکٹ بھی دے دیا گیا کرنل(ر) اجمل کے ساتھیوں کے مشورے اور پارٹی قائد جناب عمران کی خان کے حکم کے بعدکرنل اجمل نے پارٹی فیصلے پر سرِ تسلیم خم کیااور جناب غلام سرور خان کی انتخابی مہم چلائی اور انھیں کامیاب کروا دیا کامیابی کے بعد اب تاش کے ان کھلاڑیوںکا یہ ٹارگٹ شروع ہو گیا کہ اب کیوںنہ کرنل اجمل کا سیاسی پتا ہی صاف کر دیا جائے کیوں کہ یہ کھلاڑی جناب غلام سرور خان کے پیپلز پارٹی کے دور میں پیپلز پارٹی کے راہنما چوہدری کامران اسلم کے ساتھ ایسا کر کے چکے تھے کرنل اجمل کی بنائی ہوئی تنظیموں کے متوازی تنظیمیں بنانا شروع کر دی گئیں اور پرانے کارکنوں کو بالکل دیوار کے ساتھ لگانے کا کام شروع ہو گیا یہ کام چوہدری محمد افضل پڑیال سرانجام دے رہے تھے کچھ وقت کے بعدہر گاﺅں گھر گھر اور گلی گلی میںپی ٹی آئی کے دو دھڑے بن گئے کارکنان کے درمیان دست وگریبان ہونے کا کام شروع ہو گیا اس کے بعد دوسرا پتا کھیلا گیا۔ ملک نعیم اختر اعوان جو پہلے جنا ب غلام سرور خان کی جانب سے اس حلقہ کو خیرباد کہنے کے بعد بیرون ملک چلے گئے اور وہیں سیٹ ہو گئے وہ بھی واپس آ گئے تا کہ اس اقتدار کی سیاست کو خوب انجوائے کر سکیں اب آبائی گاﺅں میں تو ان کی کوئی سیاسی ساکھ نہیں تھی لہذا انھوں نے چوہدری افضل مخالف گروپ کے لوگوں کو ساتھ ملایا اور سرور خان کے ہمدرد ترین لوگوںمیں شامل ہونے کے لئے کوششیں شروع کر دیں۔ بات نہ چلنے پر ان دھڑوں کو افضل پڑیال کی پالیسیوں پر احتجاج کے طور پر پی سی ہوٹل راولپنڈی اکٹھا کیا اور ان لوگوں سے حلف لیا اورطلاقیں ڈلوائیں کہ ان موجود لوگوں کی کمیٹی سے اجتماعی مذاکرات کی بجائے کوئی غلام سرور خان سے اکیلے میں نہ ملے غلام سرور خان نے ملک نعیم کی اس طاقت سے مرعوب ہو کر انھیں اپنے رفقا میں شامل کر لیا اس کے بعد ملک نعیم نے غلام سرور خان کو کارکردگی دکھانے کے لئے چوہدری افضل پڑیال اور ان کے مخالف دھڑے کو گھر بلا کر دعوت کی اور غلام سرور خان کو یہ پیغام دیا کہ وہ اب دونوں دھڑوں کے اکٹھاکر چکے ہیں اسی اثنا میں پارٹی کی تنظیمیں بنیں کرنل اجمل صابر راجہ ضلعی جنرل سیکرٹری بن گئے مذکورہ دونوں اصحاب نے اب ضلعی اور تحصیل کی تنظیموں میں اپنی گرفت بنانے کے لئے تگ و دو شروع کر دی ناکامی پر تنظیمیں نامنظور کے اشتہار بنا کر سوشل میڈیا پر مہم شروع کر دی کرنل اجمل کے مشاورتی اجلاسوں کے بائیکاٹ کروائے اور اپنے دھڑ ے کو ایک الگ پی ٹی آئی بنانے لگے جبکہ پرانے کارکنوں کو یہ بات کسی صورت قبول نہیں تھی حالانکہ پوٹھوہار کی تنظیم مکمل پی ٹی آئی کے نظریاتی اور پرانے لوگوںپر مشتمل ہے اس کے برعکس ملک نعیم وغیرہ بعد از الیکشن آنے والے لوگ ہیں یہ صرف خود اپنا نام بنانے کے لئے نہ صرف یہ کہ پارٹی کو گروپوں میں تقسیم کر رہے ہیں یہاں تک کہ اب انھوں نے قتل و غارت گری تک نوبت پہنچا دی ہے اگر پی ٹی آئی کی گروپ بندی پر نظر دوڑائی جائے تو تقریباً حلقہ این اے59کے ہر گاﺅں میں یہی صورتحال ہے اور خدا نخواستہ اور بھی کہیں ایسا واقعہ رونما ہونا خارج از امکان نہیں لہٰذا اس صورتحال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ منتخب ایم این اے جناب غلام سرور خان ان دو افراد کو کنٹرول کریں جو اس علاقہ کو مدینہ کی ریاست بنانے کی بجائے کوفے کی ریاست بنا رہے ہیں جنا ب غلام سرور خان صاحب کو چاہیے کہ وہ کرنل اجمل صابر راجہ کا ہاتھ تھام کر پارٹی کو اس طرح مظبوط کریں جیسے وہ الیکشن سے پہلے تھے کیونکہ کرنل اجمل کو دیوار سے لگانے کی کوشش پارٹی کو دیوار سے لگانے کے مترادف ہو گی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں