columns 123

بیت المقدس

بیت المقدس سے مراد مبارک اور پاکیزہ گھر ہے عبرانی زبان میں اسے یروشلم اور عربی میں القدس کہتے ہیں القدس سے مکّہ مکرّمہ کا فاصلہ تقریبا تیرہ سوکلومیٹر اس کو اقصیٰ بھی کہتے ہیں اقصیٰ یعنی بعید تر مراد یہ کہ اسلام کے تین مقدس ترین مقامات میں سے یہ باقی دو کی نسبت بعید تر ہے یعنی زیادہ دور ہے کیونکہ مکہ ومدینہ سے فاصلے پر واقع ہے اقصیٰ کے لفظ کی یہی تفسیر راجح تر ہے بیت المقدس کا یہ علاقہ اُس زمانہ میں ایلیاء کے نام سے بھی جانا جاتا تھا بیت المقدس کوہِ صیہون نام کی پہاڑی پر واقع ہے اس کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے تین قول مروی ہیں 1۔ حضرت آدم علیہ السلام 2۔ حضرت ابرہیم علیہ السلام 3۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے سب سے پہلے اس کی بنیاد رکھی ان تینوں اقوال کی تطبیق کچھ یوں ہوتی ہے کہ بیت اللہ شریف کی طرح اس کی بنیاد بھی سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی ہو پھر ان ہی بنیادوں پر بعد میں حضرت یعقوب علیہ السلام نے تعمیر کی ہو اور آخر میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تعمیر و توسیع تزئین و آرائش کی ہو

اس کی تائید میں ایک حدیث مبارکہ ملتی حضرت ابوذرغفاریؓ سے روایت ہے میں نے پوچھا اے اللہ کے رسولؐ اس روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد تعمیر کی گئی آپؐنے جواب دیا مسجد حرام میں نے پھر سوال کیا اس کے بعد کونسی مسجد تعمیر کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے عرض کیا ان دونوں کی تعمیر کے دوران کل کتنا وقفہ ہے تو آپؐنے فرمایا چالیس سال (سنن نسائی:690) حضرت سلیمان علیہ السلام نے (961 ق م) مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی اس لیے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل گھر یا محل کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ شاید حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد کے احاطہ میں اپنی رہائش بھی رکھی اس لیے اس کو ہیکل سلیمانی بھی کہا جاتا ہے ہم اکثر گنبد صخرہ یا مسجد قبلی کی تصاویرکو دیکھ کر تذبذب کا شکار رہتے ہیں کہ کون سی عمارت اصل میں مسجد اقصیٰ ہے سمجھنے والی بات یہ ہے کہ مسجد اقصی کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا جس میں مسجد قبلی گنبد صخرہ مسجد عمر مسجد مروانی مسجد نساء محراب زکریا علیہ السلام محراب مریم علیہ السلام سب عمارتیں شامل ہیں

زمانہ قدیم سے مسجد کا اطلاق پورے صحن پر ہوتا تھا اور اس کی تائید امام ابن تیمیہ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ مسجد اقصی اس ساری مسجد کا نام ہے جسے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا اور بعض لوگ اس مصلی یعنی نماز پڑھنے کی جگہ کو جسے عمر بن خطاب ؓ نے اس کی اگلی جانب تعمیر کیا تھا اقصی کا نام دینے لگے ہیں البتہ اس جگہ جسے حضرت عمر بن خطاب ؓنے تعمیر کیا تھا نماز پڑھنا باقی ساری مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے بیت المقدس کا حرم بہت بڑا ہے اس کا کل رقبہ 144000 میٹر مربع بنتا ہے جوکہ شہر کی پرانی فصیل کے اندر آنے والے کل رقبہ کا چھٹا حصہ بنتا ہے اس کے سب اضلاع ایک برابر نہیں غربی ضلع 491 میٹر مشرقی 462 میٹر شمالی 310 میٹر اور جنوبی 281 میٹر ہے احاطہ اقصیٰ کے چودہ دروازے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے جس وقت یہ مسجد آزاد کرائی اس کے بعد بعض وجوہات کے پیش نظر مسجد کے کچھ دروازے بند کر دیے گئے تھے وہ دروازے جو بند کر دیے گئے کہا جاتا ہے ان کی تعداد چار ہے بعض کے نزدیک ان کی تعداد پانچ بنتی ہے جوکہ یہ ہیں مشرقی جانب باب الرحمۃ اور جنوب کی طرف باب المُنْفَرد باب المُزْدَوِج اور باب الثُّلاثی البتہ وہ دروازے جو اس وقت تک برقرار ہیں دس ہیں اور ان کی تفصیل اس طرح ہے باب المَغَارِبَۃ اس کو باب النبی بھی بولتے ہیں باب السلسلہ اس کو باب داود بھی بولتے ہیں باب المُتَوَضَّاجس کو باب الْمَطْہَرَۃ بھی بولتے ہیں

باب القطانین باب الحدید باب الناظر باب الغوانمۃ جس کو باب الخلیل بھی بولتے ہیں یہ سب کے سب دروازے مغربی سمت ہیں جبکہ باب العتم جسے باب شرف الانبیاء بھی بولتے ہیں باب حطۃ اور باب الائسباط شمالی سمت میں ہیں اس حرم قدسی میں دو اھم عمارتیں ہیں ایک مسجد قبلی اور دوسری قبہ الصخرۃ(سنہرا گنبد) مسجد قبلی حضرت عمر رضی اللہ عنہ 15ھ بمطابق 636 ء کو فتح بیت المقدس کے بعد یہاں تشریف لائے تو حضورؐکے سفر معراج کی منزل کو تلاش کیا اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور وہاں حضرت بلالؓکو آذان کا حکم دیا پھر خود نماز پڑھائی یہاں سادہ مستطیل لکڑی کی مسجد تعمیر ہوئی اب تک اس کی پانچ بار تعمیر ہو چکی ہے موجودہ تعمیر 1035ء کی ہے اسی کو مسجد قبلی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اس احاطہ میں قبلہ کی جانب ہے اس لیے اس کو مسجد قبلی کہا جاتا ہے اس وقت بھی اسی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اسی میں پانچ وقت نماز اور جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے مسجد قبلی کی لمبائی 80 میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے 23 مرمری اونچے ستونوں اور 49 چوکور چھوٹے ستونوں پر کھڑی یہ عمارت 705 ء میں مکمل ہوئی دروازوں پر سونے اور چاندی کی چادریں چڑھی ہوئی تھیں مسجد کے گیارہ گیٹ ہیں جن میں سے سات شمال میں ہیں اس مسجد میں 5 ہزار مسلمان نماز پڑھ سکتے ہیں اور صحن میں پچاس ہزار سے زائد نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں

اس کے بعد سب سے اہم عمارت قبہ صخرہ کی ہے قبہ گنبد کو اور الصخرۃ چٹان کو کہتے ہیں یہ قبہ(گنبد) ایک چٹان پر واقع ہے اور چٹان گنبد کے وسط میں ہے یہ قبہ (گنبد) اس چٹان پر تعمیر کیا گیا ہے جس پر حضور نبی کریم صلیؐنے کھڑے ہوکرمعراج کا سفر شروع کیا تھا اس چٹان کے کئی فضائل ہیں سیدناابن عباسؓ سے روایت ہے کہ یہ چٹان جنت کی چٹانوں میں سے ہے اکثر مؤرخین کے نزدیک یہ وہی جگہ ہے جہاں پر اسرافیل علیہ السلام کھڑے ہوکر صور پھونکیں گے یہی انبیاء سابقین علیہم السلام کا قبلہ رہا ہے قبۃ الصخرۃ آٹھ پہلوؤں پر تعمیرکیا گیا ہے آٹھ پہلوؤں میں سے ہر پہلو 33 گز کا ہے اور چاروں طرف دروازے ہیں اور قبہ (گنبد) کا اندرونی احاطہ 53 میٹر ہے اسی چٹان کے نیچے ایک غار ہے جو مربع شکل میں ہے اس غار کی لمبائی 11 فٹ اور زمین سے اونچائی 30فٹ ہے حرم کے جنوب مغرب میں ایک دیوار ہے جس کو دیوار براق کہتے ہیں اس دیوار کی لمبائی 47 میٹر اور بلندی 17 میٹر ہے روایات میں ہے کہ حضورؐنے معراج والی رات یہاں اپنی سواری باندھی تھی اسی مناسبت سے اس کو دیوار براق کہتے ہیں اسی دوار کو یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں اور یہاں آ کر عبادت کرتے ہیں یہی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جس کی طرف منہ کر کے مسلمان نماز کی فرضیت کے بعد 16سے17ماہ نماز پڑھتے رہے آج ہمارا یہ قبلہ یہودیوں کے قبضے میں ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں