132

بلدیاتی یا نمبرداری نظام

ایک دہائی سے صوبہ پنجاب میں بلدیاتی نمائندے عوام کی خدمت سے محروم چلے آرہے ہیں پہلے منتخب ہو کر اختیارات نہ ہونے کی وجہ کوئی اہم کام انجام نہ دے سکے اور پھر صوبائی حکومت نے قانون سازی میں تاخیری حربے اختیار کرکے بلدیاتی انتخابات کو التواء میں ڈالے رکھا اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ معمولی لڑائی جھگڑے میں ثالثی کا کردار ادا کر نے والا بھی میسر نہیں بلدیاتی نظام کو معطل رکھنے اور اس کے ذریعے منتخب نمائندوں کو معطل رکھنے کے عوامل کیا ہیں بنیادی سطح سے سیاسی نر سر ی کو پیدا نہ ہونے دینے میں ہماری ریاست کو کوئی فائدہ ہوا ہے معاشرے کی ترقی میں کوئی پیش رفت ہوئی اب تو نگران پنجاب حکومت نے کئی دہائیوں پرانا چوکیدارہ،نمبروار نظام بحال کرنے کی کوشش شروع کردی ہے

اس سے واضح ہوا کہ ہمارے پاس جدید تقاضوں کے مطابق کام کرنے کے طریقے اختیار کرنے کا کوئی عملی نظام و ضع کر نے کی صلاحیت نہیں ہے بلاشبہ دیہی علاقہ پنجاب کا زیادہ ہے کم پڑھے لکھے افراد غیر ہنرمندافراد ایک چیلنج ہے مگر اب تو مواصلات کے ذرائع ہر جگہ دستیاب ہیں زرعی اراضی کو تعمیرات کی نذرہونے سے بچانے کے اقدامات ضروری ہیں فالتو عمارتوں کو استعمال میں لانے کے لئے بھی سروے کی ضرورت ہے شومئی قسمت کے اس بلیک میلنگ، رشوت ستانی اور کمزور کو دبانے کے نئے راستے کھلنے کا خد شہ ہے ترقی یا فتہ ممالک میں یونین کونسل ریونیوتک کے معاملات چلاتی ہیں یونین کونسل تک ہر آدمی کی رسائی ہوتی تمام محکمہ جات کے بنیادی دفاتر یونین کونسل میں ہوں تو ہمارے مسائل حل ہونے میں بہت مدد مل سکتی ہے جب تحصیل کی سطح پر محکمانہ دفاتر ایک بلڈنگ میں ہو ں اور یونین کونسل میں بھی تو عوام کو سہو لت مل سکتی ہے

دفاتر کے قیام کے بعد ان کو منتخب نمائندوں کی سربراہی میں چلانے سے بنیادی سطح کے ترقیاتی منصوبے، مسائل حل ہوسکتے ہیں بلدیاتی نمائندوں کو حق نمائندگی سے دور رکھنے میں کیا حکمت ہوسکتی ہے؟ ہمارے ہا ں بلدیاتی نمائندوں کے پاس کا غذات کی تصدیق کے اختیارات تھے اس اختیار کا اتنا زیادہ غلط استعمال ہو ا کہ بہت سے غیر پاکستانیوں کے شناختی کارڈ تک بن گئے مقامی اور غیر مقامی لوگوں میں عدم تو ازن کے ذمہ دار کسی نہ کسی طرح بلدیاتی نمائندے ہی ہیں ترقیاتی یافتہ ممالک میں جعلی کاغذات اور قوانین کے دانستہ غلط استعمال مقامی باشندوں کی ملی بھگت سے شہریت حاصل ہو جاتی ہے تو جہاں نظام کمزور،رشوت عام ہو وہاں یہ سب تو بآسانی ممکن ہوتا ہے مستقل پتہ کی تبدیلی کو ناممکن بتایا جائے موجودہ قوانین میں لچک ہو نے کی وجہ سے مستقل پتہ تبدیل کرنا انتہائی آسان ہے

جس سے زبان، معاشرت،رسوم ورواج اور بدامنی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں جائے پیدائش کا خانہ مستقل کر دیا جائے جہاں باپ دادا کی پیدائش ہو وہی جگہ کا اندراج ان کی اولاد کی ہو۔رنگ، نسل اور قومیت کے مسائل کم ہوں گے اگر کئی دہائیوں پرانا نمبرداری،چوکید ارہ نظام پنجاب میں دوبارہ رائج ہو سکتا ہے تو مستقل کیا جائے پیدائش اور مستقل پتہ کے قانو ن کو بھی لاگو کیا جاسکتا ہے محض کسی علاقے میں مستقل رہائش اختیار کرنے سے وہاں کے مقامی بن جاتے ہے دیہی علاقے بہت زیادہ مسائل کا شکار ہورہے ہیں

ان کی شناخت مٹ رہی ہے زمین کی خریدوفروخت نے رہی سہی نکال دی ہے بے ہنگم رہا ئشوں کی تعمیر نے مقامی آبادیوں کی کو غیر محفوظ بنا دیاہے لاقانونیت بدامنی عام ہوچکی ہے بلدیاتی انتخابات کے الفقاد اور اس نتیجہ میں بننے والے چیئرمین اور کونسلرزکے ذریعے مقامی مسائل اور ترقی کے لئے خاطرخواہ کام کیا جاسکتا ہے عام انتخابات کے ساتھ بلدیاتی نمائندوں کا بھی انتخاب کرادینے سے پورے ملک میں یکساں سیاسی نظام کا قیام ہوسکتا ہے جو لوگ سیاسی عمل کے ذریعے قومی خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ اس عمل کا حصہ بن کر ملک و قوم کی ترقی میں عملی طور پر شریک ہو سکیں قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ ساتھ ضلعی اورمقامی انتخابات بھی بیک وقت کرادئیے جائیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں