105

ایسا کام تو کوئی نسلی ہی کرسکتا ہے

روز مرہ گفتگو میں چند الفاظ استعمال ہوتے ہیں جن کا مطلب، مفہوم، اثر بہت وسیع ہوتا ہے مثلاََ اچھے کام کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ ایسا کام تو کوئی نسلی ہی کرسکتا ہے کام سے نفرت اور حقارت کا اظہار کے لئے کہتے ہیں اگر نسلی ہو تا تو ایسا کا م کبھی نہ کرتا۔ دوسرا لفظ خاندانی استعمال ہوتا ہے بہترین سُلوک، رحمدلی کے اظہاراور اچھے برتا ؤکے جواب میں کہا جاتا ہے کہ بڑا خاندانی آدمی ہے اوربرے کا م کے نتیجہ میں بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق کیسے خاندان سے ہے۔ نسلی، خاندانی جیسے القابات تعریف اور تضحیک دونوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں جسطرح لکڑی کی اصل ہی اس کی حقیقی پہچان ہوتی ہے

مضبوطی، خوشبو اورچمک اس کی خوبیاں ہوتی ہیں اسی طرح جیتے جاگتے انسان کے اندر بھی پیدائشی خوبیاں ہوتی ہیں جن کا اظہار اس کے خاندان کا پتہ دیتی ہیں۔ ماں باپ کے ذریعے سے بہت سی چیزیں ور ثہ میں ملتی ہیں۔ بناوٹ، ملمع کاری، تصنعّ، اداکاری، فریب یہ تمام اس وقت کھل کر سامنے آ جاتا ہے جب کوئی اپنی اصل کا اظہار کر بیٹھتا ہے کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود اصل تو چھپ نہیں سکتی ان برائیوں سے بچنے کے لئے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے تعلیم و تربیت کی ضرورت گود سے لے کر گور تک رہتی ہے

ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ پڑھ لکھ کر، روزگار، کے حصول کے بعد شادی کے بندھن میں بندھنے سے بچوں کی پرورش میں مصروف رہنے تک وقت نہیں نکال سکتے کہ اپنے اوپر غورکرسکیں، اپنا محاسبہ کریں، مربی محسن، بیماری خامیوں کی نشاندہی کرنے والے ہمدر دکے پاس وقت گذاریں تا کہ جس ڈگر پر ہم چل رہے ہیں اس کی سمت کا اندازہ کر سکیں کہ یہ درست ہے کہ نہیں۔ صرف جمع،تفریق اور ضربیں دینے میں وقت گذر رہا ہے۔یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران مہینے میں تین دن ہمیں تمام ترتعلیمی سرگرمیوں سے ہٹا کر جامع المنہاج کے پاس قائم تر بیتی مرکز میں بھیج دیا جاتا تھا مسلسل تین دن روزہ رکھنا اور تمام تر وقت اپنی اصلاح غور و فکر اور عبادت میں گذارتے تھے اپنی اصلاح کی کوشش اس وقت کامیاب ہوتی ہے

جب اس کے محلے، خاندان کا ماحول پُر سکون ہو۔ جہاں بلاوجہ شور، شرارتیں، بے ہنگم قوانین ہوں وہاں تنہائی اور غور و فکر کیسے ممکن ہو۔ ہم نے اپنی زندگیوں کو اترائی پر ڈال رکھا ہے اور سمجھ رہے ہیں کہ بغیر محنت اور تکلیف کے منزل پر پہنچ جائیں گے۔مدعا و حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ ہمارے رویے، طور طریقے ایسے ہوں کہ ایسے تکلیف دہ الفاظ کے استعمال کی نوبت نہ آئے کہ ہم کسی کے رنگ نسل، خاندان، قومیت پر انگلی اٹھائیں، طعنہ دیں ہماراطرزِ عمل انصاف پر ہو۔ ہماری گفتگو میں بد نیتی شامل نہ ہو۔ دلائل جھوٹ اور سچ کو سامنے لانے والے ہوں تو کبھی بھی مد مقابل خاندان، نسل پر طعنہ زنی نہیں کرے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں