143

اوقات میں رہو

اوقات سے مراد حیثیت بساط کے ہیں اپنی اوقات میں رہو؟اکثر دوسرے کو سمجھانے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے چونکہ ہماری روزمرہ بول چال کا حصہ ہے جب کسی کو سنجیدہ دھمکی دینا مقصود ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اپنی اوقات میں رہو بہر حال اس کا استعمال دوسرے کی تحقیر، تذلیل کے لئے ہوتا ہے اس لفظ کے استعمال سے دشمنی بڑھتی ہے انتقام کا جذبہ ابھرتا ہے اور نفرت کی آگ بھڑکتی ہے روزمرہ کے معاملات میں جب سے احتیاط کا دامن چھوڑا ہے گلے شکوے،گالم گلوچ و طعنہ زنی عام ہو گئی ہے دھیما لہجہ درست اور مناسب الفاظ کا استعمال ذاتی احترام کے علاوہ دوسروں کے احترام کا باعث بنتا ہے اس سے ہمدردی اور محبت کے جذبات ابھرتے ہیں نرم رویہ بہت سی مصیبتوں سے بچاتا ہے کیونکہ اس کے پس منظر میں نیک نیتی اور خلوص کا ہوتا ہے اوقات بے ایمان منافق اور بے غیرت جیسے الفاظ کے استعمال سے بے سکونی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا ہے طعنہ زنی اور لعنت ملامت سے معاشرتی فساد پیدا ہوتا ہے ذہن خلفشار کا شکار ہوتے ہیں ایسا ہیجان بپا ہوتا ہے کہ انسا ن دوسرے انسان کے خون کا پیاسا ہو جاتا ہے ترش رویے،خواہ مخواہ کی الجھنیں پیدا کرتے ہیں بے سروپا الزامات نے ہماری زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں ان چیزوں کا مقابلہ کیسے ہو برداشت لڑائی جھگڑے سے گریز اور گالم گلوچ سے اجتناب کو بزدلی کہا جاتا ہے ان قبیح کاموں سے بچنے والے کو بزدل،ڈرپوک اور ان جیسے کئی القابات سے پکارا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں سچ کہنے اور برے کاموں سے روکنے والے کو پاگل کہا جاتا ہے ذاتی مفاد کے بجائے حق پر رہنے والے کو مر جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں منافرت کی خلیج اتنی گہری اور وسیع کر دی گئی ہے کہ محبت ہمدردی کی گنجائش ختم ہو کر رہ گئی ہے اعتماد،اعتبار اور خلوص جیسے الفاظ بے معنی ہو چکے ہیں بڑے چھوٹے سب بھیڑ چال کا شکار ہو چکے ہیں تمیز، ادب،آداب اور برداشت ہماری زندگیوں سے رخصت ہو چکے زبان سے درشت الفاظ دروغ گوئی فحش کلامی اور برے القابات سے ایک دوسرے کو پکارنا معمول بن چکا ہے اس کے باوجود بضد ہیں کہ ہمارا تعلق انسانیت سے ہے پر امن لوگوں سے میل جول سے ہی امن سے رہنے کی عادت ہو سکتی ہے ایک دوسرے سے ادب سے پیش آنے والوں کے ساتھ رہ کر ہی آداب معاشرت سیکھے جا سکتے ہیں جس طرح اونٹ پالنے والوں میں تکبر اور بکریاں پالنے والوں میں عاجزی ہوتی ہے کہ اونٹ غلطی معاف نہیں کرتا ضد رکھتا ہے اور بالآخر انتقام لے کر رہتا ہے جبکہ بکریاں کمزور ہوتی ہیں بار بار غلطی کرتی ہیں اور ان کے ساتھ رہنے والا زور سے ضرب نہیں لگاتا نرمی سے پیش آتا ہے ان کے ساتھ نرم برتاؤ اور غلطی معاف کرنے کی عادت پختہ ہوتی ہے کس طرح اکڑ تلخی جیسی فضول عادات سے جان چھڑا سکتے ہیں تاکہ معاشرے میں امن وسکون ہو سکے اوقات جیسے الفاظ کے استعمال سے کسی کی اصلاح مقصود نہیں ہوتی بلکہ شرمندہ کرنے کے لیے اسے اوقات یاد دلائی جاتی ہے اس لیے مدمقابل کمزور ہو یا مضبوط اس کے دل و دما غ میں خلفشار ضرور پیدا ہوتا ہے جس سے نفرت بعد ازاں انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں بہت سے لوگ دوسروں کو پریشان دیکھ کر اطمینان حاصل کرتے ہیں اس کے پیچھے بھی در حقیقت غیر انسانی رویے ہوتے ہیں ہمارے معاشرے میں جذبات کی قدر کرنا عزتِ نفس کا خیال رکھنا اور احترامِ آدمیت کی بہت زیادہ کمی ہے اس لیے الفاظ کے استعمال میں بھی احتیاط نہیں کرتے بلکہ اس کو فخر سمجھتے ہیں ان عادتوں سے معاشرتی سکون تباہ ہوتے ہیں قتل و غارت گری عام ہوتی ہے فتنہ و فساد ہر وقت ہوتا ہے غرض کہ انسان عبادت سکونت میں عافیت محسوس نہیں کرتا بظاہر تو معاشرہ انسانی ہوتا ہے مگر حیوانیت ہر طرف رقصاں رہتی ہے ہمیں اپنے کردار طرزعمل تربیت اور حرکت میں توازن کی ضرورت ہے تب ہی
معاشرہ سکون اور امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں