140

راجہ پرویز اشرف

پاکستان میں جمہوری دور میں اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ کے پاس رہا سابقہ قومی الیکشن کے بعد اقتدار پہلی بار ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے بجائے پاکستان تحریک انصاف کو ملا عالمی و ملکی حالات کورونا وائرس کے سبب اور حفاظتی اقدامات کے سبب ارض پاک میں معاشی بحرانوں نے جنم لیا

جس پر قابو پانے کیلئے کبھی بجلی گیس و پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا رہا تو کبھی دوست ممالک چین سعودی عرب‘دوبئی قطر سے مدد مانگنا پڑی آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے کی روایت ہمارے ملک میں کوئی نئی نہیں ہے ہر دور میں آئی ایم ایف سے قرض لیکر ملک میں ترقی خوشحالی لانے کے شادیانے بجائے جاتے رہے ملک میں مہنگائی کے سبب عوام پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی سے سے نالاں دکھائی دے رہی تھی

تجزیہ نگاروں و سیاسی پنڈتوں نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اگلے قومی الیکشن میں پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں ملیں گے قومی اسمبلی میں پہلی بار کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد اقتدار 14سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل پارٹی کے ہاتھ آیا اس عمل کے دوران گوجر خان سے منتخب رکن قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو ایک بار پھر ریاست کا اہم منصب کو چلانے کی زمہ داری ملی راجہ پرویز اشرف کو پہلا بڑا منصب ایک عدالتی فیصلہ (وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے فیصلے) و دوسرا بڑا منصب تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے سبب ملا

وہ اس وقت سپیکر قومی اسمبلی ہیں آئین پاکستان میں یہ عہدہ اہمیت رکھتا ہے موجودہ حکومت کے اقتدار کو 8 ماہ گزر چکے ہیں عوام کو ان سے ریلیف کی امیدیں تھیں مگر پی ایم ڈی کے باہمی اتحاد سے بننے والی اس حکومت میں مہنگائی کا جن بے رحم دیو کاروپ دھار کر بستی بستی نگر نگر تباہی مچا رہا ہے۔ حکومت پیٹرولیم مصنوعات سے لیکر بجلی سوئی گیس کی قیمتوں میں اضافے تک ہر چال چل چکی مگر مہنگائی کی شرح بڑھتی ہی جا رہی ہے آٹا دال پیاز گھی کی قیمت عام آدمی کی قوت خرید سے کئی بڑھ کر ہو چکی ہے

راجہ پرویز اشرف بھی اس حکومت کے اتحادیوں میں شامل ہیں جو عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے اس تمام صورتحال میں راجہ پرویز اشرف گوجر خان میں اپنا ووٹ بینک کو بچا پائیں گے وہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کر پائیں گے

آمدہ قومی الیکشن میں وہ گوجر خان سے اپنے فرزند راجہ خرم پرویز اشرف کے ہمراہ اتریں گے وہ اپنی ووٹ کے ساتھ ساتھ اپنے فرزند کی کامیابی کے لئے ووٹ کے حصول کیلئے سرگرم دکھائی دیں گے بڑھتی مہنگائی کے دوران وہ اقتدار میں شریک ہونے کے سبب خاموش رہے مگر عوام کو اسکا کیا جواز پیش کریں گے۔

راجہ پرویز اشرف اہم ریاستی عہدے ملنے کے باوجود پارٹی معاملات کو اپنے آبائی گھر و اسلام آباد سے چلا رہے ہیں تحصیل گوجر خان میں کہیں بھی پارٹی کا پبلک سیکرٹریٹ قائم نہیں عوام سے سہل رابطے کے لئے ضروری ہے کہ راجہ پرویز اشرف کے برادر اصغر جاوید اشرف اپنے آبائی گھر کے بجائے گوجر خان سٹی میں بیٹھ کر حلقے کے باسیوں کے مسائل کو سنیں تاکہ سب آسانی سے وہاں تک پہنچ سکیں انکے آبائی محل نما رہائش گاہ تک پہنچنا عام باسی و محدود ذرائع نقل حرکت رکھنے والے کے لئے ممکن نہیں

راجہ پرویز اشرف کو گوجر خان کے سیاسی قلعہ پر اپنی فتح کا پرچم لہرانے اور اپنے فرزند راجہ خرم پرویز اشرف کو ممبر صوبائی اسمبلی منتخب کروانے کے لئے چند اقدامات کو اٹھانا ہوں گے بصورت دیگر پی ڈی ایم کا حصہ ہونے و انکے باہمی اتحاد سے چلنے والی حکومت کی مایوس کن کارکردگی آمدہ قومی الیکشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے گزشتہ قومی الیکشن میں گوجر خان میں سوئی گیس فراہمی و دیگر میگا منصوبوں کے سبب مقامی باسیوں نے انھیں ووٹ دیا

جس سبب وہ پنجاب سے پارٹی کے واحد امیدوار تھے جو کامیاب ہوئے بحیثیت وفاقی وزیر اور وزیراعظم انھوں نے گوجر خان سٹی و مندرہ میں دو یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان کیا مگر وہ اپنے اقدامات کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے اب وہ گوجر خان میں پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس کے قیام کا دبنگ اعلان کر چکے ہیں اگر قومی الیکشن سے قبل یونیورسٹی کیمپس کی عملی شکل سامنے نہ آئی تو وہ یوتھ کے ووٹ کو حاصل نہیں کر پائیں گے

آمدہ قومی الیکشن میں کامیابی کے لئے راجہ پرویز اشرف کو اسلام آباد کے حصار سے نکل کر گوجر خان کو وقت دینا پڑے گا پی ٹی آئی رکن اسمبلی کے موصول استعفیٰ پر انکا وقف و پھر اچانک ہی ان قوانین کو نظر انداز کر کے ممبران اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے اقدام کو ان کا یوٹرن قرار دیا جا رہا ہے انھیں جہاں حکومتی اتحادی ہونے پر اہمیت و منصب حاصل ہے وہاں انھیں اسی اتحادی حکومت کی مایوس کارکردگی کے اثرات انکے ووٹ بینک پر بھی پڑ رہے ہیں جسکا دراک انھیں شاہد الیکشن مہم کے دوران ہو سکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں