89

اساتذا پڑھانے کے بجائے احتجاج پر مجبور

وطن عزیز کا قانون نرالا ہے یہاں مظلوم کے بجائے ظالم کا ساتھ دینے کی رسم چل رہی ہے کوئی بھی محکمہ ادارہ اس دستبرد سے محفوظ نہیں یہاں جو بھی اپنے حق کے لیے نکلا وہ یا تو قید ہوا یا ملک چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کردیا گیا ملکی سیاست کو ہی ایک نظر دیکھ لیں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے لیکن آج بات سیاست کی نہیں قوم کے ان معماروں کی ہے جو ملک کے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں میری مراد اساتذہ سے ہے ملک کا کوئی ایونٹ ہو اساتذہ ذمہ دار مردم شماری ہو ڈینگی مکاو مہم الیکشن ڈیوٹی ہو یا کوئی الف ب مہم اساتذہ سول سپرمیسی کا ہراول دستہ ہیں لیکن بے بسی کی حد دیکھیے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے زائد ہونے کو ہیں ہمارے ٹیچرز اور خواتین ٹیچرز احتجاج کے نام پر سڑکوں پر رلنے پر مجبور ہیں ان اساتذہ کے ہڑتال اور احتجاج اپنے کسی زاتی مقصد کے لیے نہیں بلکہ انکا احتجا سرکاری سکولوں کی نجکاری یعنی انکو پرائیویٹ اداروں یا افراد کے حوالہ کرنے کیخلاف ہے جس پر اساتذہ نے ضلع راولپنڈی بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں میں تدریس روک دی ہے

کالم نگار کی دیگر تحریریں پڑھیں

اساتذہ نے تدریسی عمل غیر معینہ مدت کے لیے روک دیا ٹیچرز یونین کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ مطالبات کی منظوریتک تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل نہیں ہوگا ٹیچرز یونین سمیت اساتذہ کا موقف ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی نجی کاری کسی صورت بھی قبول نہیں کی جائے گی پنجاب حکومت لیو اِنکیشمنٹ کا ترمیمی فیصلہ فوری واپس لے اور پینشن رولز میں ترمیمی فیصلے کو بھی فوری واپس کیا جائے سکولوں میں گزشتہ دو ہفتوں سے تعلیمی عمل معطل ہے لیکن مجال ہے کہ حکومت وقت اس کو سیریس لے کیونکہ انکے اپنے بچے تو بیرون ملک یا پھر ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جہا عام آدمی کا بچہ بانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا وطن عزیز کی آزادی کو اللہ کے کرم سے آٹھ دہائیاں آزادی کی صبح دیکھنے کو ہے لیکن مجال کہ کسی نے آج تک شعبہ تعلیم کے حوالہ سے اقدامات کیے ہوں الٹا بیکن سسٹم جیسے تعلیمی نظام کو لاکر ایک ایسا سسٹم دے دیا گیا ہے جو مخصوص لوگوں کے لیے اور عام آدمی کے لیے نوگوز ایریا بنا دیا گیا ہے ہمارا تعلیمی نظام اتنا کمزور ہے کہ اچھے بچے بھی کلرک ہی بھرتی ہوسکتے ہیں اب خیر سے اس سسٹم کو بھی من مرضی کے افراد کے ہاتھوں میں دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں دوسری طرف انتظامی نااہلی اتنی عروج پر ہے یا اس ایشو کو جان بوجھ کر لمبا کروایا جارہا ہے مرکزی قائدین جن میں قاضی عمران اپنے ساتھیوں طاہر حمید بھٹی عدیل عباسی عمران ستی سمیت اس وقت پابند سلاسل ہیں اس اقدام نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اساتذہ نے احتجاج کو مزید لمبا کردیا ابھی تک تو معاملات پرامن ہیں اور اساتذہ بھی روڈوں کے بجائے پرامن طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن کل کلاں وہ اپنے سکول کے بچوں کیساتھ روڈ بند کر احتجاج شروع کردیتے ہیں تو پھر اس نگران حکومت کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں آپ نے جلد یا بدیر مطالبات کو تسلیم کرنا ہی ہے کیونکہ انکا کوئی مطالبہ ایسا نہیں جو قابل قبول نہ ہو اب ملکی معیشت درست کرنے کے لیے سکولوں کے گریبان پر ہاتھ ڈالنا کہاں کی دانشمندی ہے پنجاب کے سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد اس وقت تقریبا2 کروڑ سے زائد ہے اب وہ کون ہے جو اس وقت 2کروڑ بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہا ہے جبکہ تقریباً پانچ لاکھ مرد خواتین اساتذہ کو ذلیل و خوار کرکے سڑکوں پر بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے اساتذہ قوم کے محسن ہیں جن قوموں نے ترقی کی منازل طے کی ہیں انہوں نے استاد کی تکریم کو افضل جانا ہے اساتذہ نے ہماری کئی نسلوں کو تیار کیا اب اس کا ازالہ ہم انکو ذلیل کرکے دے رہے ہیں

کالم نگار کی دیگر تحریریں پڑھیں

سکولوں میں صرف اساتذہ ہی نہیں کلریکل سٹاف، کلاس فورملازمین بھی شامل۔ہیں جنکا تنخواہ پر گزارہ ہے اور گھر کا چولہا جلتا ہے لیکن شومئی قسمت کہ انکا گلہ گھونٹنے کی تیاری کی جارہی ہے اب کوئی بتائے کہ محسن نقوی کس باغ کی مولی ہے جو چند دن نظام دیکھنے کے لیے چوکیدار رکھا گیا اور اس نے گھر پر قبضہ کرلیاپوٹھوہاری کی ایک مثال ہے کہ(اگ لین گئی تے مالک بن بیٹھی) یعنی آگ لینے گئی اور گھر کی مالکن بن گئی نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کے مسائل میں اضافے کا باعث نہ بنے انکے مسائل کو حل نہیں کرسکتی تو اضافہ نہ کرے اب توایک نئی کہانی کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ اقدام کیا گیا ہے چند ہفتوں کے بعد اس سیاسی جماعت کی قیادت اس ایشو میں کود پڑے گی اور سارے معاملے کو ہائی جیک کرکے اساتذہ کو مکمل سپورٹ اور یقین دہانی کروائی جائیگی اور انکی سپورٹ کوحاصل کیا جائیگا وطن عزیز میں حرام خوروں کے لیے اگر ایسا کیا جاتا ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہوگی لیکن بچوں کا جو نقصان ہورہا ہے اسکا کون زمہ دار ہے بہرصورت اساتذہ کے مسائل کو مل بیٹھ کر سنا جائے اور حل کیا جائے ہماری زلالت کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم محسن کش قوم ہیں اپنے مفاد کے لیے ذلالت کے ہر گھڑے میں گرنے کو تیار ہوتے ہیں معمار پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بے بسی کی موت سے لیکر محسن اسلام محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر کی بے قدری تک ہم نے کوئی سبق سیکھا تو اب جاگ جائیں اور سبق سیکھ لیں اور خدارا مستقبل کے کلرک اور چپڑاسی بھرتی ہونے والے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے خدا را انکے متعلق ہی سوچ لیجیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں