122

پولیس کے نظام کو غسل تیزاب کی ضرورت ہے

ایک دور تھا جب راولپنڈی ایک پرامن شہرکے طور پر مشہور تھا جرائم کی شرح انتہائی کم تھی بلکہ اگر یوں کہیں کہ نہ ہونے کے برابر تھی تو زیادہ موزوں ہوگا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں راولپنڈی امن والی جگہ کے بجائے جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں کے جرائم میں چوری، ڈکیتی قتل اور اغوا جیسے سنگین جرائم میں ملوث70ملزمان کا تعلق افغانستان سے ہے جو یہاں غیر قانونی طور پر موجود ہیں راولپنڈی میں سٹریٹ کرائمز کا ریشو انتہاء کو پہنچ چکا ہے پولیس کے اعلی حکام کرائم کو کنٹرول کرنے کے بجائے مہنگائی کو جرائم کے اضافے کی بنیادی وجہ قرار دیکر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں شہرمیں جرائم کی بڑھاو تو ایک طرف لیکن مضافات میں اس سے زیادہ بری حالت ہے دوسری طرف پولیس کے سینئر افسران اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے لیے پولیس کی جانب سے جاری ہونے والی کرائم ڈائری کو روکنے پر مجبور ہوگے ہیں سیاسی تعیناتیوں نے شہریوں کو جرائم پیشہ افراد کے رحم کرم پر چھوڑ دیا ہے میٹ دی پریس میں جب بھی کسی سینئر یا سرکل پولیس افسر سے سٹریٹ کرائم کے حوالہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے مہنگائی میں اضافے کو اس کا زمہ دار ٹھہرانے کیساتھ ساتھ شہر میں پولیس نفری کی کمی کریمینلز کی تعدادمیں اضافے کا رونا روکر اپنی جان کی خلاصی کروالی گزشتہ ہفتے کی کرائم رپورٹ کو دیکھیں تو شہری کروڑوں کی مالیت نقدی زیوارت موبائل فون سمیت قیمتی چیزوں سے محروم ہوئے لیکن گرفتاری ندارد یہ صرف ایک فیصد ہے ہمارے زرائع کے مطابق شہرمیں 3 کروڑ کی وارداتیں ہوئی جن میں شہری 4 گاڑیوں، 38 موٹرسائیکلوں سمیت ایک رکشے طلائی زیورات،موبائلز اور نقدی سے محروم ہوگئے تھانہ کینٹ کے علاقہ میں سنگاپورپلازہ کے قریب تین موٹرسائیکل سوار اسلحہ کی نوک پر علی رضا سے 45لاکھ پانچ ہزار روپے اورموبائل چھین لیا گیاجبکہ تیلی محلہ میں مشتاق احمد کے گھر تالے توڑ کر12تولے طلائی زیورات، ائرپورٹ ہاو سنگ سوسائٹی میں عاطف جمیل کے گھر کے تالے توڑ کر 8لاکھ روپے اور طلائی زیورات مالیتی6لاکھ روپے چوری کرلئے گئے جبکہ اسلام آباد تھانہ کورال کی حدود میں سعودی پلٹ شہری ریاست کو جو اپنے بھتیجے فاروق اور بھائی لیاقت کے ہمراہ ائرپورٹ سے واپس آ رہا تھا کہ پولیس کی کالی وردی میں ملبوس وائرلیس اٹھائے افراد نے تلاشی کے بہانے 50 ہزار سعودی ریال، دو ہزار چار سو روپے اور شناختی کارڈ چھین کر فرار ہو گئے اگر بات کریں مضافات کی تو اس وقت سب سے زیادہ وارداتیں گوجرخان سرکل میں ہورہی ہیں گوجرخان سرکل میں ڈاکو راج برقرارہے DSPگوجرخان کی ناقص سپروژن سے سرکل میں جرائم بڑھ گئے اگر ہم ایک ماہ کے دورانیہ کو دیکھیں تو یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہاں پر جرائم پیشہ افراد کو مکمل چھٹی ملی ہوئی ہے یا پھر سرکل پولیس مکمل چھٹی پر ہے پہلے تو ڈکیت کسی خاص موقع پر وارداتیں کرتے تھے لیکن اب باقاعدہ ناکے لگا کر لوٹتے ہیں

پرامن شہر راولپنڈی قبضہ مافیا سمیت جرائم پیشہ عناصر اور افغانیوں کے نرغے میں آچکا ہے

گزشتہ روزتھانہ مندرہ کے علاقے کلیام اعوان لنک روڈ پرریلوے لائن پر موجود لکڑی کے پل کے پاس ڈاکوؤں نے مکمل ناکہ بندی کرکے شہریوں کا سرشام ہی متعدد شہریوں کو لوٹ لیااور خوش بختی کہ متعلقہ تھانہ اتنی بڑی واردات سے مکمل لاعلم رہا گوجرخان سرکل کے ایس ڈی پی او/ ڈی ایس پی محمد سلیم خٹک کی ناقص سپروژن کا نتیجہ ہے کہ گوجرخان سرکل کے تینوں تھانوں مندرہ، گوجرخان اور جاتلی کے مختلف علاقوں میں ڈاکوؤں نے کئی ماہ سے شہریوں کو لوٹنے کا سلسلہ تواترسے جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ڈی ایس پی گوجرخان کی ناقص کارکردگی اور سپروژن باعث پولیس ڈاکوؤں کو نکیل ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے چند روز قبل تھانہ گوجرخان بیول کے علاقے سنگنی میں 08 رکنی ڈکیت گینگ نے شہری کے گھر گھس کر اہل خانہ کو یرغمال بناتے ہوئے لاکھوں روپے مالیت کے طلائی زیورات اور نقدی پر ہاتھ صاف کیا تھا۔دیگر واقعات میں چند روز قبل تھانہ گوجرخان سے چند قدم فاصلے پر سے نامعلوم ڈاکو تاجر شیخ مرتضیٰ سے 22 لاکھ لوٹ کر لے گے تھے جبکہ تھانہ مندرہ کے علاقے میں تاجر سے 06 لاکھ، تھانہ جاتلی کے علاقے آہدی سے عمر فاروق، غالب حسین سے 02لاکھ 80 ہزار چھین کر فرار ہوگئے تھے اگرہم DSPگوجرخان سلیم خٹک کی کارکردگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بجائے ڈکیتوں اور چوروں کی کارکردگی زیادہ بہتر نظر آتی ہے راولپنڈی پولیس کے سینئر افسران اب باقاعدہ کے اغوا جسی وارداتوں میں اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں لیکن مجال ہے کہ انہیں یہ چیز محسوس ہو کہ اب تھانہ صادق آباد کو ہی دیکھ لیں جہاں ایک پوری فیملی کو بچوں سمیت اغوا کرکے غائب کردیا گیا تھا وہ تق بھلا ہوعدالت کا کہ اس نے زرا سخت ایکشن لیا تو پولیس افسران کو اپنی شامت نظر آئی اور پوری فیملی کو نامعلوم اغوا کار چھوڑ گے لیکن مجال ہے کہ کسی نے پوچھا یا تفتیش کی کہ یہ کہاں تھے اور کیسے برآمد ہوگے اور اغوا کار کون تھے زرا تھوڑا اور پیچھے جائیں تو بحریہ ٹاون میں ایک فیملی کئی گھنٹے محبوس رہی اور پولیس کی مکمل سرپرستی ایک بااثر اور سینئر افسر کے قریبی دوست جو تحصیلدار ہیں کو حاصل رہی اللہ جانے ہم کہاں کھڑے ہیں اور کہاں جانا ہے لیکن ایک بات تو طے ہے کہ پولیس کے موجودہ نظام کو تیزاب سے غسل کی ضرورت ہے بصورت دیگر عوام کوجرائم پیشہ افراد اسی طرح یرغمال بنا کر رکھیں گے اور راولپنڈی جیسے ضلع میں ایسے افسران کی ضرورت ہے جو کرائم فائٹر ہو ناکہ کسی بڑے سوسائٹی یا کسی سیاسی کی آشیر باد والے افسران کی لیکن یہ کون سوچے گاہاں وہ سوچ سکتا ہے جو تیزاب کے غسل سے بچ نکلے گا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں