اپنے قیام کے ساتھ ہی پاکستان بھارت کی جارحیت کا شکار بننا شروع ہوگیا اور وقتافوقتا پاکستان کی سالمیت کو للکارا بھی جاتا رہا لیکن پاکستان اپنی استطاعت کے مطابق اس کا مقابلہ بھی کرتا رہا۔ آخرکار انتہائی وار کرتے ہوئے پاکستان کے مشرقی بازو کو بھی بزور طاقت الگ کر دیا گیا اور ناعاقبت اندیشی میں بھارت کے حکمرانوں نے پاکستان کے قیام کی بنیاد دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کر دینے کا شرمناک دعوی بھی کر دیا۔ اس سے بھارت دیدہ دلیری اور دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بقیہ پاکستان کو بھی نیست و نابود کر دینے کے بزدلانہ اعلانات بھی کرنے لگا۔ اپنے انہی عزائم کی تکمیل کے لیے 18 مئی 1974ء کو پوکھران میں ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف اپنے جنوبی ایشیاء کی واحد ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کر دیا بلکہ اس خطے میں طاقت کے توازن کو شدید متاثر کرتے ہوئے ہمسایہ چھوٹے ممالک کے لیے ایک مستقل خطرے کی صورت بھی اختیارکر گیا۔ بھارت اس علاقے پر اپنی چودہراہٹ قائم کرنے کی دھن میں بدمست ہاتھی کی طرح آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ ان حالات نے پاکستان کو بھی اپنی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے اقدامات کی طرف سعی و جستجو کرنی پڑی۔
اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے انتہائی سنجیدگی اور پوری دلچسپی سے پاکستان کو مستقبل کے خطرات سے بچانے کے لیے کوششیں شروع کیں اور جنوبی ایشیاء میں بھارت کے مستقل خطرے کا مقابلہ کرنے اور طاقت کے توازن کو برابر کرنے کے لیے ایٹمی میدان میں قدم رکھنے کا اعلان کیا۔اس عظیم مقصدکے حصول کے لیے قرعہ فال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام نکلا اور انہیں اس فریضے کی انجام دہی کے لیے ہر طرح کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں جنہوں نے انتہائی کم عرصے میں ایک ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ یہ پاکستان کا واحد منصوبہ تھا جس میں کسی قسم کی سیاسی وابستگیاں آڑے نہ آئیں اور پاکستان کی ہر حکومت اور ہر ادارے نے کسی بھی قسم کی مصلحت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے کامیابی سے تکمیل کی راہ پر گامزن کیا۔ اس ایٹمی منصوبے پر پاکستان کی سلامتی کا دارومدار تھا اور یہ پاکستان کا ایک قومی اثاثہ بھی تھا جسے پاکستان کی ہرحکومت نے تحفظ دیا اور اس کی تکمیل کے سفر میں کوئی بھی رکاوٹ حائل نہ ہونے دی گئی۔ اس تمام عرصے کے دوران بھارت اپنی روایتی خباثت سے باز نہ آیا اور مسلسل پاکستان کے وجود کے لیے مسائل کھڑے کرتا رہا لیکن پاکستان کی مسلح افواج اپنے غیور ہموطنوں کی مدد و اعانت سے ان کے تمام ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملاتی رہیں اور وہ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ سے کبھی غافل بھی نہ ہوئیں۔ پاکستان اس کے ساتھ ساتھ لمحہ بہ لمحہ اپنے ایٹمی منصوبے میں کامیابی سے آگے بڑھتا رہا۔
اس تمام سفر میں پاکستان کو کچھ اندرونی عناصر کی مخاصمت کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک کی طرف سے نیست و نابود کر دینے اور معاشی طور پر ناطقہ بند کر دینے کی دھمکیاں بھی دی گئیں لیکن اس منصوبے کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ” ہم گھاس کھالیں گے لیکن ہر قیمت پر پاکستان کے لیے ایٹم بم ضرور بنائیں گے”۔اس دوران عالمی مالیاتی اداروں نے معاشی پابندیاں بھی لگائیں اور مختلف طریقوں سے پاکستان کو پابہ زنجیر کرنے کو سعی و جستجو بھی کی گئی لیکن یہ سب کچھ پاکستان قوم کے عزم صمیم کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ بھارت طاقت کے منہ زور گھوڑے پر سوار اپنے راستے میں آنے والوں کو حرف غلط کی طرح مٹا دینے کی دھن میں بھاگا چلا جا رہا تھا اور اپنی اسی طاقت کے نشے میں اپنے سرپرستوں کی آشیرباد سے اس نے11 اور 13مئی1998ء کو اس نے پوکھران میں ہی پانچ ایٹمی دھماکے کر کے اپنے خیال میں پورے علاقے میں اپنی دھاک بٹھادی لیکن اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس کا واسطہ کس قوم سے پڑنے والا ہے۔
اپنی بالادستی کے زعم اور اپنی طاقت کے نشے میں بھارت کھلم کھلا پاکستان کو دھمکانے پر اتر آیا اور براہ راست پاکستان سے آزادکشمیر خالی کرنے کی تاریخ بھی مانگنے لگا۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ بھی جوابا اپنی ایٹمی صلاحیت کا کھلم کھلا اعلان کردے۔ جب پاکستان کے اس ارادے کی بھنک عالمی طاقتوں کو ہوئی تو وہ پاکستان کو دھمکیوں اور پرکشش مالی مراعات سے اس سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگے لیکن اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ”اب یا کبھی نہیں ” کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے عالمی دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے 28 مئی 1998ء کو نہ صرف پاکستان کو نہ صرف پہلی اسلامی ایٹمی قوت بنا دیا بلکہ بھارت کی تنی ہوئی گردن کو بھی سرنگوں کر دیا۔ انہوں نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ دھماکے کر کے پوری پاکستانی قوم کو ایک بے مثال تحفہ دے کر خوشی وانبساط سے نہال کردیا۔ اس کی پاداش میں پاکستان کو شدید عالمی مخالفت اور پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود پاکستان پورے انہماک سے دفاعی میدان میں خودکفالت کی منزل کے حصول کی طرف گامزن رہا اور جس کا مظاہرہ 2025ء کے ماہ مئی ہی کی 10 تاریخ کو بھارت کو تکنیکی طور پر مفلوج کر کے اس کی فضاؤں میں راج کرتے ہوئے اس کے فوجی اور جاسوسی کے مراکز کو خس و خاشاک کی طرح مٹا کر پوری دنیا کو حیران و پریشان کر کے رکھ دیا اور انہیں یہ بھی بتا دیا کہ پاکستان اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے حاصل کی گئی ایٹمی صلاحیت استعمال کرنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتا ہے
بلکہ اسے سنبھالنے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ ہم ہر سال یوم تکبیر تزک واحتشام سے مناتے ہیں یہ دن پا کستان کی غیرت، خودمختاری اور عزم صمیم کے اظہار کا دن بھی ہے۔اس وقت قومی غیرت اور حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم کچھ سال پیچھے جا کر اپنی تمام سیاسی وابستگیوں اور عصبیتوں کو ایک طرف رکھ کے اپنے ان تمام بے مثال محسنوں شہید ذو الفقار علی بھٹو، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جنرل ضیاء الحق، شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کو یاد کریں اور انہیں خراج عقیدت پیش کریں کہ جن کی لازوال قربانیوں کی بدولت آج ہم ”یوم تکبیر ”کے ساتھ ساتھ” یوم عزم ”منانے کے بھی مستحق ٹھہرے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تمام گمنام مجاہدوں کو بھی سلام پیش کریں کہ جن کے فقیدالمثال جذبہ جنوں اور عزم صمیم نے وطن عزیز کو مٹانے والوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا اور پاکستان کو دنیا میں ایک ممتاز اور معتبر مقام پر فائز کردیا!!! بقول جناب محمد کفیل:
؎ ہم اہل جنوں کو ہررخ سے، سو بار جہاں نے پرکھا ہے!!!
کیا اہل جنوں دب جائینگے ان اہل جفا کی موجوں سے!!!