ارد گرد معاشرے میں نظر دوڑائیے تو ہر طرف وحشت اور بر بریت دل کو ہلا کر رکھ دیتی ہے کبھی ہم نے سوچا یہ کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ ہماری اپنی تہذیب ،ثقافت اور اسلامی اقدار سے دوری ہے جب تک مسلمانوں نے اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن اور اسلامی اقدار کو اپنائے رکھا انہیں ہمیشہ عروج حاصل رہا دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنا غلام نہ بنا سکی مگر جوں ہی مسلمانوں نے اپنی ثقافت اور اسلامی اقدار سے منہ پھیرا وہ ایسی پستی میں جا گرے کہ آج تک نہ اٹھ سکے ماضی میں ہر تہذیب یہ سمجھتی تھی کہ دنیا میں صرف وہی اعلیٰ اقدار کی مالک ہے اور صرف اسے ہی توسیع اور تسلط کا حاصل ہے لیکن آج ہم مختلف ثقافتوں کے تصادم کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس لئے کہ اسلامی تہذیب تمام تہذیبوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے تہذیب میں تحریر کا،شہروں کا وجود ،سیاسی ردو بدل اور پیشہ وارانہ تشخص کے علاوہ ہر طرح کے تکنیکی علوم بھی شامل ہیں ماضی میں اسلامی تہذیب و ثقافت کی شکل انتہائی ترقی یافتہ ہے نہ صرف زبان بلکہ یورپ کی ساری اقوام وضع قظع اور تمدن معاشرے میں مسلمانوں کی نقل اتارنے کو فخر سمجھتے تھے مگر آج ہم کون ہیں؟کیاہیں ؟ ہماری شناخت کیا ہے؟ہمیں نہیں پتا؟ کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں مگر مسلمانوں والا ایک کام نہیں ہمارے معاشرے میں اتنے تہذیب یافتہ لوگ ہیں کہ ہر کام میں غلط بیانی اور کرپٹ کام کرنے کو فخر سمجھتے ہیں ۔بہت مدبرانہ انداز میں نازیبا الفاظ کو بھی تہذیب کے دائرے میں لے جاتے ہیں وہ نہائیت مدبرانہ انداز میں اپنی زبان سے پھر جانا ،کبھی 40روپے تو کبھی تھوڑے آگے جا کے 50 ہو جا تا ہے ارے کیوں نہ ہوں ہم بھی معاشرے کا ستیا ناس نکالنے میں کیوں پیچھے رہیں میں دیکھ کہ حیران رہ گئی کہ ابھی ڈرائیور صاحب 40پھر تھوڑے آگے آتے ہی 50پر آگئے اور مسافر بیچارے تو چیپ ان کی شان میں گستاخی کی تو ڈرائیور نے بڑے مدبرانہ انداز میں گاڑی روک کے مسافر کو اس کی منزل سے پیچھے اتار دیا۔ہاں جی یاد رکھیے گا کہ آج کے بعد نہ اپنے حق کے لئے بولیے اور نہ کسی تہذیب یافتہ افراد سے اپنے حق کے لئے بات کریں۔میں نے ایک چھوٹی سی مثال دی ہے جب یہاں یہ حال ہے تو ملک کو کون پوچھے گا ۔ہم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے ہمارے سائنسدان کریں گے نا مگر یہ کیاں بھول گئے ہم کہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے جیسی عوام ویسے حکمران آج مسلمانوں نے مغرب کی زبان اور وضع قطعااختیار کی کہ ایمان اور اسلامی تہذیب کا تعلق تو جی دل سے ہے ظاہری وضع تراش کو اس میں کیا دخل لیکن آج ہمارے لئے یہ بات روشن عیاں ہے کہ یہ ایک رو تھی جو قلب و دماغ میں چھا گئی اور ہمارے بچوں میں اور پورے معاشرے میں نصرانیت اور انگریزیت ان کو دلوں میں بیٹھ گئی ۔اسلام اور تہذیب سے دوری اور مغرب کی مادی زندگی کو قبول کرنے کی بڑی وجہ جو میں سمجھتی ہوں مغرب کی صنعتی ترقی اور دولت نے مسلمانوں کو احساس کمتری کا شکار کر دیا ہے اب یہ حال ہے کہ ہم ترقی و رفت کے لئے اصول ہوں یا اخلاق ہوں یا ادب یا قوانین غرض کہ ہر کام میں مغرب کی تقلید واجب سمجھتے ہیں مغرب سے آئی ہوئی بات کو اپنا فخر محسوس کرتے ہیں مگر ہمیں یہی خوش فہمی لے ڈوبی اور آج ہم ایک دوسرے کے دست نگر ہیں آخر کب تک ہم زلیل وخوار ہونگے ہمیں آنے والی نسلوں کو اپنی شاندار تہذیب و تمدن سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ محب وطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر ایک مہذب قوم کی صف میں کھڑا ہو کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں اور ہم کھوئی ہوئی شناخت دوبارہ حاصل کر سکیں اور پھر کسی کے زہن میں یہ سوال نہ آئے کہ ’’ہم کون ہیں{jcomments on}‘‘
213