113

ہم آپس میں گتھم گتھا ہیں

عبدالغغور میرے بچپن کے دوست ہیں وہ نوے کی دہائی میں مستقل طور پر برطانیہ میں سیٹل ہوگئے یوں تو ہر دو تین سال بعد والدین اور بہن بھائیوں کی یاد ستانے پر پاکستان ضرور چکر لگاتے رہتےتھے چند ہفتوں کے قیام کے دوران عزیزو اقارب سے ملاقاتوں اور بچپن کے دوستوں کے ساتھ وقت گزار کر واپس چلے جاتے تھے اس بار کرونا وباء اور مالی حالات ڈسٹرب ہونے کی وجہ سے تین کی بجائے پانچ برس بعد وطن عزیز پاکستان آئے گزشتہ روز مجھے وقت دینے اور اپنی بچپن کی بھولی بسری یادوں سے دل بہلانے کے لیے اچانک ہی دفتر میں ملنے آئے

گپ شپ کے دوران ہی راولپنڈی اسلام آباد کے مضافات میں نئے ڈویلپ ہونے والے پوش علاقہ میں موجود ایک ریسٹورنٹ میں دن کا کھانا کھانے کا پرواگرم بن گیا گاڑی لیکر نکلےتو جیسے ہی جی ٹی روڈ پر پہنچے تو دیکھا کہ سڑک کے دونوں اطراف میں گاڑیوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں ایمبولینس کے سائرن کی آوازیں بھی دل کو لگ رہی تھیں لیکن مظاہرین ہیں کہ اپنے ہم وطنوں بہن بھائیوں کی تکالیف و پریشانیوں کو پس پشت ڈال کر مین روڈ پر ٹائروں کو آگ کر اس میں بجلی کے بل جلا کر مسلسل نعرے بازی میں مگن تھے ٹریفک وارڈن اور پولیس بھی مظاہرین کو روڈ کو کلییئر کروانے کے بجائے ایک طرف خاموش تماشائی بنے کھڑے نظر آرہے تھے

ہم نے ہجوم کا حصہ بننے کی بجائے واپسی کا راستہ ملنے کو غنیمت جانتے ہوئے دفتر آگئے روڈ بندش کی وجہ سے شدید گرمی سے مسافروں کی نڈھالی اور ایمبولینس میں زندگی و موت کی کشمکش مریضوں کی حالت زار دیکھ کر ہماری بھوک ویسے ہی مٹ چکی تھی لیکن افسوس اس بات کا بھی ہو رہا تھا کہ مظاہرے میں نہ صرف مزدور طبقہ بلکہ بچے اور بلخصوص ہماری ماں بہنیں بھی شامل تھیں جو کہ اپنے ہاتھوں میں بل اٹھائے لوگوں کی مشکلات کو پس پشت ڈالتے ہوئے صرف اپنے حق کے لیے اور بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف نعرہ بازی کررہی تھیں انہیں اس امر سے کوئی غرض نہیں تھی کہ روڈ کی بندش سے کسی کی جان نکل رہی ہے یا کسی کے فلائٹ مس ہو رہی ہے

ہم اس سوچ میں تھے اچانک ہی میرے دوست آہ بھرتے ہوئے بولے خطیب بھائی مجھے دیار غیر میں رہتے ہوئے پچس برس بیت گئے ہیں لیکن اس طرح کی صورت حال کھبی نہ دیکھنے کو ملی جس سے شہریوں کو کسی اذیت کا سامنا کرنا پڑے مظاہرے بھی ہوتے ہیں سڑکیں بھی بلاک ہوتی ہیں لیکن وہاں ایمبولینسز اور سپیشل لوگوں کی گاڑیوں کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے آپ کو یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ آج کی تباہی اور مہنگائی کے زمہ دار بھی ہم خود ہیں ہم نے چور کو چور کہنا چھوڑ دیا ہے اس کو برا جاننے کی بجائےخاموش اختیار کرکے ان کے دست وبازو بن رہے ہیں انہوں نے ماضی کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ شاید آپ کو یاد ہو یا نہ ہو جب ہم نوے کی دہائی میں سکول جانے کے لیے صبح سویرے ہی اپنے گھروں سے نکلتے تھے بس سٹاپ پر پہنچنے کے لیے آدھا پونا گھنٹے پیدل مسافت میں دو تین دیہاتوں کے متخلف راستوں سے گزرنا پڑتا تھا

اس دوران ہم دیکھا کرتے تھے کہ گاؤں کے چند لوگوں نے بجلی کے میٹر اس لیے الٹے کیے ہوتے تھے کہ اس سے میٹر چلنا ر ک جاتے ہیں بعض نے تو میٹر کے شیشے میں گرم سوئی سے سوراخ کرکے رات کو ان کی گراڑی میں تنکا پھنسا دیتے تھے تاکہ میٹر نہ چل سکے اور صبح اٹھ کر سے پہلا کام میٹروں کے رخ کو سیدھا کرنا اور ان میں پھنسائے تنکے نکالنا ہوتا تھا تاکہ دن کو چیکنگ کے وقت واپڈا کی ٹیم کو چوری بارے علم نہ ہوسکے ہمیں اس بات کا علم تو ہوتا تھا کہ یہ بجلی چوری کے مختلف طریقے ہیں لیکن ان چوروں کی شکایت کے بارے میں آگاہی نہ تھی لیکن ایک دن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جس سے ہمارے ایمان کو تقویت پہنچی کہ حرام حرام ہی ہے چوری کا پیسہ ٹھہرتا نہیں ایک نہیں تو دوسری جانب سے ضروری نکل جاتا ہے اتفاق سے بجلی چوری کرنے والے ایک صاحب چھٹی کے وقت اس بس میں سوار ہوئے جس میں ہم پہلے سے سوار تھے بس میں کھڑے دیکھ کر ہم نے چھوٹے ہونے کے ناطے ان کے احترام میں سیٹ ان کے لیے خالی کردی. ساتھ کھڑے سفر کے دوران ان سے پوچھا چاچا جی خریت ہے

اپ اس وقت کدھر سے آرہے ہیں جواب میں انہوں نے کہا کہ بیٹا میں معدہ کی بیماری میں مبتلاء ہوں کہ اس کی میڈیسن یعنی کیسپول یہاں کے مقامی میڈیکل سٹور سےنہیں ملتے اس لیے چالیس کلومیٹر دور بلیو ایریا اسلام آباد جاکر لانا پڑتے ہیں ان کے الفاظ سن کر ہم نے اس وقت بھی دعا کی تھی کہ اللہ باری تعالیٰ ہم لوگوں کو سمجھ و ہدایت والی زندگی عطاء فرما ہم ایک طرف چوری کرکے رزق حرام کرلیتے ہیں اس سے برکت بھی اٹھ جاتی ہے اور پھر چوری سے کی ہوئی بچت کو اپنی بیماریوں کے علاج اور نہ چاہتے ہوئے بھی مقدمات میں الجھ کر تھانہ کچہریوں کے نذر کردیتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں اس کی سمجھ نہیں آتی دوسری طرف ملکی اثاثہ جات کو بھی نقصان پہنچا کر اس کو ڈیفالٹ ہونے کے قریب کردیا ہے

ڈالر کی بے قابو اڑان کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان برپا ہے جس کی زد میں ہر طبقہ فکر کا عزت کے ساتھ جینا دوبھر ہوچکا ہے مہنگائی نہ صرف پاکستان بلکہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی عروج پر ہے وہاں بھی بجلی پانی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی ہر شہری کے لیے ایک مسلہ بنا ہے لیکن وہاں چوری ہڑتالوں اور مظاہروں میں ملکی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا اور نہ ہی پولیس خاموش تماشائی کردار ادا کرتی ہے قانون کی گرفت سخت ہے شہریوں سے ٹیکس کی وصولیابی کےبعد حکومت میں شامل وزراء اپنی مراعات کے لیے خرچ کرنے کی بجائے شہریوں کی فلاح وبہود پر استعمال کرتے ہیں جب کہ وطن عزیز میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں ہم اپنے گربیان میں جھانکنے کی بجائے ایک دوسرے کو مورود الزام ٹھہراتے ہوئے آپس میں گتھم گتھا ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں