101

ہمت کا کوہ ہمالیہ،صحافی شیخ شبیر احمد

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

وقت شطرنج ہے جس کی چالوں کو گننا ستاروں کے گننے سے کم نہیں اور ہمارایہ ازل سے ابد تک سفر ان ہی چند خانوں کی گردش میں رہتا ہے ان سے باہر نہیں۔ جب کسی ایک محاذ پر خاموش جذبوں کے شور وقت اور حالات کی ستم ظریفی کا سنگم ہو جائے تو وہ ڈھلتی شاموں میں شکستہ گام ہوکر بھی آبلہ پائی کے سفر کی حوصلوں کی مہمیز عطا کرتا ہے اس کے چاروں کے جانب بھی بھی ایک دھند پھیلی ہوئی تھی

جس میں کئی سائے آسیب بن کر اس سے لپٹ جانا چاہتے تھے مگر اس کا حوصلہ اسے آواز دیتا تھا اس کی ڈھارس بندھانا تھا کہ اسے مایوس نہیں ہونا بلکہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو ہر حال میں ادا کرنے کرنا ہے میری تحریر کی محور شخصیت اور اس کی جہدوجہد کی تعریف کے لیے میرا قلم کم مائیگی کا شکار ہے۔خار دار زیست میں ہر روز نئے چہروں سے واسطہ پڑتا ہے سب ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں کسی کے چہرے سے ناراضگی ظاہر ہوتی ہے کسی کے چہرے پر بدمزگی کے آثار نظر آتے ہیں

کسی کے چہرے سے کوفت اور بوریت ٹپکتی ہے لیکن ایسے چہروں کے درمیان کچھ ایسے خاص چہرے بھی ہوتے ہیں جو گوہرمقصود ہوتے ہیں محبت سے بھرپور پرکشش اور باوفا۔میری تحریر ایک ایسے ہی درویش صفت انسان بارے ہے جسے میں نے ہر وقت مسکراتے اور محبت بانٹتے دیکھا ہے جو متوسط گھرانے تعلق رکھتا ہے اور جس نے اپنے زندگی جہد مسلسل کی طرح کاٹی ہے۔میری طرح لکھنے کا شوق ہے جسے پورا کرنے کے لیے روزنامہ جہان پاکستان سے وابسطہ ہیں بیول میں بک اسٹال چلاتے ہیں۔

شیخ شبیر احمد جن کی زندگی محنت مشقت میں گزری میری طرح انہوں نے بھی زندگی میں بہت زیادہ جہدوجہد کی۔2016 میں شیخ شبیر کے بائیں گھٹنے میں درد شروع ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا مڈل کلاس سے تعلق ہونے باعث انہیں آپریشن کروانے میں کافی دقت کا سامنا رہا تاہم 2017 میں انہوں نے دوستوں کی مدد سے اپنا آپریشن کروایا۔شیخ شبیر صاحب کے مطابق اس آپریشن کے بعد ابھی وہ پوری طرح تندرست نہیں تھے کہ روزی روٹی کی فکر نے انہیں کام کرنے پر مجبور کیا اور ایک روز کام کے دوران گرنے سے گھنٹے کا مسئلہ زیادہ سنگین ہوگیا۔

دوستوں نے ایک بار پھر مدد کی اور 2021 میں دوسرا آپریشن ہوا۔تیسرا آپریشن 2022 میں ہوا لیکن آج 2024 میں بھی شیخ شبیر اسٹینڈ کے سہارے چلتے ہیں۔شیخ شبیر کی ذات پر لکھنے کی اصل وجہ معذوری کے باوجود ان کی مسلسل جہدوجہد ہے وہ صبح بچوں کو اسکول چھوڑ کر اپنی دوکان کھولتے ہیں نوبجے کے لگ بھگ وہ شہر میں اخبارات بانٹتے ہیں۔شیخ شبیر احمد رزق حلال کی جستجو کے علاؤہ گھریلو ذمہ داریاں بھی احسن طور ادا کرتے ہیں۔گھر کا سودا سلف خود خریدتے اور خود گھر پہنچاتے ہیں۔

برادری اور دوست احباب کے دکھ درد میں اپنی شرکت کو یقینی بناتے ہیں۔گاوں کے قبرستان میں جھاڑ جھنکارکی صفائی کو بھی ایمان کی حد تک اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اس میں وہ اپنی معذوری کو کبھی حائل نہیں ہونے دیتے۔شیخ شبیر صاحب نے دوران گفتگو بتایا کہ جب ان کا پہلا آپریشن ہوا اور وہ گھر واپس آئے تو واش روم تک جانے کے لیے پریشانی رہی کیونکہ یہ بات ذہن میں ہی نہیں تھی ایک دوست نے انہیں اسٹینڈلا کردیا

اس اسٹینڈ کے استعمال کے دوران انہیں احساس ہوا کہ نہ جانے کتنے لوگ ان کی طرح معذور ہوکر اسٹینڈ کی حاجت رکھتے ہوں گے۔دوکان پر آنا شروع کیا تو اپنی ضروریات محدود کرتے ہوئے روزانہ کچھ رقم جمع کرنا شروع کیا جس سے اسٹینڈٖ خرید کر دوکان میں رکھے اس وقت ان کے پاس دس اسٹینڈ ایک ویل چیئر موجود ہیں جو وہ ضرورت مندوں کو تندرستی کے بعد واپسی کی شرط پر بلا معاوضہ فراہم کرتے ہیں۔اس وقت بھی وہ تمام اسٹینڈ ضرورت مندوں کے پاس ہیں۔شیخ شبیر نے اپنی داستان سناتے ہوئے کہا میرے تمام دوست انتہائی مخلص محبت کرنے والے لوگ ہیں وہ میرے لیے فرشتوں کی مانند ہیں۔

جہنوں نے میرے آپریشن کے لیے بغیر کسی لالچ و طمع کے مجھ پر چودہ سے پندرہ لاکھ تک خرچ کیا۔ان دوستوں کی محبت خلوص اور گائڈنس ہی ہے جس نے مجھے معذوری کے باوجود بہتر زندگی جینے کا راستہ دیکھایا۔دوکان کے علاؤہ دیگر امور زندگی نارمل طور ادا کرتا ہوں فارغ وقت میں باغبانی کا شوق پورا کرتا ہوں۔شیخ صاحب کی معذوری اورپھرپور زندگی جینے کا انداز دیکھ کر مجھے کہنا پڑا کہ شیخ شبیر ہمت جرآت کا کوہ ہمالیہ ہیں۔جو چالیس سال سے زائد عمر میں معذوری کے باوجود مسائل ومصائب سے برسرپیکار ہیں۔اللہ رب کائنات سے دعا ہے مجھے بزرگ کے طور عزت بخشنے والے اس نوجوان کو استقامت عطا فرمائے۔صحت وتندرستی کے ساتھ عمر خضر عطا فرمائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں