قارئین کرام! ملک پاکستان کے باسیوں کو ہر ایک کلومیٹر بعد ریورس کر کے اسی نقطے پہ لا کھڑا کیا جاتا ہے جہاں سے وہ چلے تھے‘ کیونکہ اگر ایک کلومیٹر اور اس کے بعد ایک کلومیٹر اور آگے اور پھر اور آگے بڑھنے دیا جائے تو کچھ طاقتور مافیاز کا چورن بکنا بند ہو جائے، یہاں گلی اگر تعمیر ہوتی ہے تو چند ماہ بعد اسے واٹر سپلائی لائن کے نام پہ اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے تاکہ احساس رہے اور یہ مرہون منت رہیں‘سڑک بنائی جاتی ہے تو اس میں ناقص میٹریل استعمال کیا جاتا ہے تاکہ یہ چکر لگاتے رہیں‘ پانی کی سپلائی چار دن بہتر ہوتی ہے تو پھر شیڈول بے ترتیب کر دیا جاتا ہے تاکہ یہ پانی سپلائی کرنے والوں کے مرہون منت رہیں، ایک دن اچھی صفائی کر دیں تو مہینہ مہینہ صفائی کرنے والے ادھر کا رُخ نہیں کرتے کہ یہ ہمیں یاد کرتے رہیں، اسی طرح ملکی ترقی کو دو پہیے لگانے والے انہی دو پہیوں پہ اکتفا کرتے ہیں اور پیچھے آنے والا ان دو پہیوں کو چار کرنے کی بجائے انہی دو پہیوں کو نکال کر ترقی کی گاڑی دوڑانے کی کوشش کرتا ہے جس سے جو ترقی کی ہوتی ہے وہ بھی مٹی میں مل جاتی ہے۔ زرداری دور اور اس کے بعد نوازشریف دور میں سی پیک کا بڑا شور ہوتا تھا‘ اب تو تین سال ہو گئے چپ سی لگی ہوئی ہے‘ شاید موجودہ سرکار نے پہیے نکال کر بیچ دیئے ہیں، یہ سب مثالیں دینے کا مقصد ایک بات سمجھانا ہے کہ ہم کس قدر پست ذہن و سوچ کے مالک ہیں کہ ہم اچھا کام ہوتے دیکھ نہیں سکتے اور اس کا ساتھ دیتے ہوئے عجیب سی شرم محسوس کرتے ہیں بلکہ اس کام میں روڑے اٹکانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں، گوجرخان کی بات کی جائے تو یہاں ”ہر شاخ پہ اُلو” والا حساب ہی ہے، صفائی ملازمین کا انچارج ہے تو وہ اپنی جگہ مہان افسر ہے، واٹر سپلائی کا انچارج ہے تو اس کے نخرے مان نہیں کئے جاتے، بلدیہ کے انجینئرز کے نخرے اپنی جگہ، محکمہ مال کا کلرک اور تحصیلدار کا ریڈر بھی اپنی کرسی پہ پورا وزیراعظم بنا بیٹھا ہوتا ہے، اراضی ریکارڈ سنٹر میں ٹوکن دینے والا پورے سنٹر کا مالک معلوم ہوتا ہے، اسی طرح ہر محکمے میں ہر شخص اپنی جگہ ”فرعون” بنا بیٹھا ہے جیسے اس نے ہی کام کرنا ہے تو کام ہو گا ورنہ کائنات رُک جائے گی، حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، ان وجوہات کی وجہ سے مسائل بڑھتے ہیں اور لوگ دن بدن مشکل میں پڑتے جا رہے ہیں۔اللہ خوش رکھے اے سی غلام سرور کو‘ اچھا بھلا گوجرخان ترقی کی جانب سفر شروع کر چکا تھا کہ بس ”فرعون” نما انسانوں نے اس کا راستہ روک لیا، صفائی، واٹر سپلائی، سٹریٹ لائٹس، سرکاری زمینوں کی واگزاری، محکمہ مال کی بہتری سمیت بہت سارے کام بہتری کی جانب گامزن تھے اور منتخب نمائندوں کو لوگوں نے منہ لگانا چھوڑ دیا تھا، ایک کال اور میسج پہ کام ہونے لگ گئے تھے، فرعون نما ملازمین کو کرسیاں چھوڑنا پڑ گئیں تھیں اور دیہاڑیاں لگنا بند ہونے کا اندیشہ سر پہ منڈلا رہا تھا کہ اچانک وہ سارا خطرہ ٹل
گیا اور سب کچھ معمول پہ آ گیا۔قارئین کرام! گوجرخان شہر میں ہر شخص ایک مسئلے کی جانب بہت سنجیدہ دکھائی دیتا ہے وہ ہے جی ٹی روڈ پہ ریڑھی بازار، این ایچ اے کی جگہ ہے، موٹروے پولیس اور این ایچ اے انتظامیہ آج تک ریڑھی بانوں سے جگہ واگزار نہ کرا سکے اور نہ کرا سکتے ہیں، بلدیہ انکے خلاف ایکشن لے تو جرمانے کے بعد ریڑھیاں واپس کرنا پڑتی ہیں، میرے ذہن میں ان کا آسان حل یہ ہے کہ ان سب کو ”گولی” مار دینی چاہیے جو بھی ریڑھی روڈ پہ لگائے اس کو جان سے مار دینا چاہیے تاکہ یہ قصہ تمام ہو کیونکہ کچھ فیس بکی دانشوڑوں کے نزدیک یہ انسان نہیں حیوان ہیں، انکے گھر چولہا جلے نہ جلے بس یہ روڈ پہ نظر نہ آئیں۔ اور یہ بہت سارے لوگوں کی خواہش بھی ہے کہ ایسا ہو جائے تو شاید ان کے کلیجوں میں ٹھنڈ پڑ جائے۔گوجرخان شہر میں جی ٹی روڈ کی حالت ابتر ہے، جی ٹی روڈ کیساتھ لگے حفاظتی بلاکس جگہ جگہ سے ٹوٹے ہوئے ہیں‘اندرون شہر ٹریفک کی تیزرفتاری جان لیوا ہے، جی ٹی روڈ پہ غیر قانونی پارکنگ کی بھرمار ہے، روڈ لائٹس خراب ہیں، اندرون شہر تجاوزات کی بھرمار ہے، گلیوں میں سٹریٹ لائٹس خراب ہیں، جگہ جگہ سے گلیاں اکھاڑ کر چھوڑ دی گئی ہیں۔المیہ یہ ہے کہ این ایچ اے کے کردار پہ کوئی نہیں بولتا، موٹروے پولیس اور ٹریفک پولیس کے کردار پہ کوئی نہیں بولتا، بلدیہ ملازمین جو منتھلیاں لیتے ہیں انکے بارے میں بولتے زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں‘ بڑے بڑے پلازے بن گئے جنہوں نے کئی کئی فٹ تک تجاوز کر رکھی مگر کوئی نہیں بولتا، کیونکہ وہاں بولنے سے پر جلتے ہیں اور ایک ریڑھی ریڑھی اور بس ریڑھی نظر آتی ہے اور ہو سکتا ہے ان ریڑھی والوں سے بھی بھتہ لیا جاتا ہو۔اس شہر کو مسائل سے نکالنے کیلیے پلاننگ ہی نہیں ہے اور نہ کوئی سنجیدہ ہے کیونکہ مسائل ہوں گے تو سیاسیوں کو کوئی گھاس ڈالے گا نا، مسائل حل ہو گئے تو کس نے سیاسیوں کو پوچھنا ہے؟؟؟یہ سیاست اور سیاہ ست اس گوجرخان کو کھا گئی ہے‘ تاجروں کی سیاست نے رہی سہی کسر نکال دی ہے جو دن رات ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا عوام کی خدمت سمجھتے ہیں اور انکو اپنے عہدوں اور فرائض کے بارے میں ابھی تک آگاہی ہی نہیں ہے، غالباً 14 اگست والے دن شہر میں سی سی ٹی وی کیمروں کی بات ہوئی تھی‘ اب تک خاموشی ہے، سپیڈ چیکنگ کیمروں کی بات ہوئی‘ اب تک خاموشی ہے، پارکنگ کی بات ہوئی اب تک خاموشی ہے کیونکہ مسئلہ یہی ہے کہ اگر مسائل حل ہو گئے تو ہمیں کون پوچھے گا۔قارئین کرام! گوجرخان شاید پاکستان کی واحد تحصیل ہے جس کے پاس دو نشان حیدر ہیں اور پاکستان کی واحد تحصیل ہے جس کے بہادر سپوت نے پہلا نشان حیدر اپنے نام کرنے کا اعزاز حاصل کیا، چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ اسی تحصیل کے پاس رہا، پاکستان کا سب سے بڑا منصب وزیراعظم کی کرسی اس تحصیل کے پاس رہی مگر بہتری نہیں آئی اور نہ کوئی امید ہے، کیونکہ ہر ایک اپنے عہدے کا استعمال اپنی ذات کیلیے کرتا ہے، عوام کے مسائل حل ہو گئے تو راجہ صاحب چوہدری صاحب فلاں صاحب فلاں صاحب کے نعرے کون مارے گا؟؟ والسلام
198