عالمی سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ومغرب مشرقِ وسطیٰ میں اپنے سیاسی و عسکری اہداف کے حصول کے لیے نت نئی اتحادی تنظیموں کو جنم دیتے رہتے ہیں،اور یہ تنظیمیں ہمیشہ عسکری ہوا کرتی ہیں اگر ماضی قریب میں دیکھا جائے تو جب افغانستان پر روس نے حملہ کیا تھا تو امریکہ و مغرب نے مذہبی جنونیت کو ہوا دے کر اسامہ کی کمان میں القاعدہ کو جنم دیا جس نے آگے چل کر’’با قاعدہ‘‘ ایک تکفیری دہشت گرد تنظیم کی شکل اختیار کر لی۔اپنے لوگوں کو ڈرا کر رکھنے کی پالیسی بھی حکمران طبقے کی سیاسی مجبوریوں میں سے ایک ہے۔ بالخصوص سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کے نمائندہ حکمران طبقات خواہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں حکمرانی کر رہے ہوں، وہ اپنے عوام کو ڈرا کر رکھتے ہیںیورپی یونین کی پولیس ایجنسی یورو پول کے سربراہ روب وین رائٹ کو داعش کی عسکری حیثیت کی حمایت کرنے اور اسے تسلیم کرنے کے لیے پریس کانفرنس کیوں کرنا پڑی؟بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب شام کے مسئلے کے حل کے لیے ممکنہ طور پر جینیوا میں فریقین کے درمیان میں مذاکرات ہونے والے ہیں۔کیا یورپی یونین کی پولیس ایجنسی یورو پول کے سربراہ اسد حکومت اور اس کے اتحادیوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ داعش سمیت دیگر دہشت گرد قوتیں یورپ کو اگر نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو اسد کے اتحادیوں کو بھی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔روس کے لیے پیغام واضح ہے کہ ماسکو کے آسان اہداف یا روس کے دیگر شہروں کو بھی ہدف بنایا جا سکتا ہے اگرچہ روب وین رائٹ نے روس کا نام نہیں لیا مگر جس طرح انھوں نے داعش کی عسکری صلاحیتوں کو تسلیم کیا ہے یہ بجائے خود شکست خوردگی کے ساتھ ساتھ اسد کے اتحادیوں کو ڈرانے کی بھی کوشش ہے۔اس پریس کانفرنس کی ٹائمنگ سے تو یہی لگتا ہے۔یورپ میں بے شک دہشت گردانہ حملے ہوئے برطانیہ سمیت فرانس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔یہ دونوں ملک اپنی معیشت اور عسکری قوت میں بہت طاقتور ہیں جبکہ ان کا جاسوسی کا نظام بھی نہایت اعلیٰ ہے مگر ان ممالک کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں نے پیغام دیا کہ وہ اپنے ’’سلیپرز سیلز‘‘ کی مدد سے کارروائیاں کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔داعش اس حوالے سے یورپ پر حملوں اور قیامت کے ظہور کا ممکنہ ماسٹر پلان بھی جاری کر چکی ہے۔ دہشت گرد تنظیم داعش کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے وہ یورپ کے ان ہی شہریوں کو استعمال کرے گی جو داعش کا حصہ ہیں اور داعش انھیں اپنے فہم کے مطابق جہادی ٹریننگ دے کر واپس بھیج دے گی۔بے شک کچھ لوگوں کو داعش نے برطانیہ سمیت یورپ کے ان ممالک میں بھیج بھی دیا ہو گا جن ممالک کے وہ شہری ہیں۔ یہاں کلی قصور ان ممالک کا ہے جنھوں نے اپنے شہریوں کو پہلے تو ترکی کے راستے شام میں داخل ہونے دیا اور پھر ازا ں بعد انھیں واپس آنے دیا۔میں نہیں سمجھتا کہ یورپی ممالک بشمول برطانیہ کو اپنے ان شہریوں کو واپس آنے کی اجازت دینا چاہیے جو دہشت گردی کی ٹریننگ حاصل کر کے آرہے ہیں۔اس سے امن پسند مسلمانوں کی زندگی تو اجیرن ہو گی ہی،عام انسانوں کے چیتھڑے بھی اڑیں گے۔میں ضروری سمجھتا ہوں کہ یورپی یونین کی پولیس کے سربراہ کی پریس کانفرنس پر ایک نظر اگر ڈال لی جائے تو یہ مناسب ہو گا۔ روب وین رائٹ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران میں کہا کہ (داعش )نے حملے کرنے اور لڑنے کا ایک نیا انداز اختیار کیا ہے۔ ان کے بقول،نام نہاد اسلامک اسٹیٹ کا ارادہ بھی ہے اور ان کے پاس یورپ کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی ہے۔ روب وین رائٹ کے مطابق یقیناًسلامتی کے تمام ادارے ممکنہ حملوں کو ناکام بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔اس پریس کانفرنس کا مقصد اسلامک اسٹیٹ کے بارے میں یورو پول کی نئی رپورٹ میں شامل تفصیلات سے صحافیوں کو آگاہ کرنا تھا۔ اس رپورٹ میں توجہ دی گئی تھی کہ یہ جہادی گروپ کس طرح سے کارروائیاں کرتا ہے۔ اسلامک اسٹیٹ نے گزشتہ برس تیرہ نومبر کو پیرس میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس واقعے میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس دہشت گرد گروپ کی جانب سے اتوار کے روز ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے، جس میں نو دہشت گردوں کو دکھایا گیا ہے، جو آئی ایس آئی ایس (داعش)کے خلاف قائم بین الاقوامی اتحاد کے رکن ممالک بشمول برطانیہ پر حملے کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ امریکی سربراہی میں نومبر 2014 میں شام و عراق میں آئی ایس آئی ایس (داعش)کو نشانہ بنانے کے لیے ایک اتحاد قائم ہوا تھا۔یورو پول کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے آئی ایس آئی ایس(داعش )بھارتی شہر ممبئی کی طرز پر یورپی شہروں میں حملے کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ خاص طور پر فرانس میں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس دوران آسان اہداف کو نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ اس طرح دہشت گردی کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اکتوبر 2015 میں مصر میں روسی فضائی طیارے کی تباہی اور نومبر میں پیرس حملے آئی ایس آئی ایس(داعش )کی بدلتی ہوئی پالیسی واضح کر رہے ہیں روب وین رائٹ کی پریس کانفرنس میں یہ تسلیم کیا جانا کہ داعش کا ارادہ بھی ہے اور اس کے پاس صلاحیت بھی کہ وہ یورپ پر حملے کرے اور یہ کہ وہ(داعش) آسان اہداف کو نشانہ بنائے گی ایک پریشان کن بات ہے ،مگر کیا داعش ٹیکنالوجی کے حوالے سے یورپ سے آگے ہے؟ کیا داعش کے پاس جدید لڑاکا طیارے ہیں؟ کیا داعش کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں یورپ سے آگے ہے؟ کیا داعش کے پاس نیٹو جیسا اتحاد ہے؟ اگرچہ اسے بعض ممالک کی کھلے بندوں اور بعض ممالک کی کسی اور طرح سے مدد حاصل ہے۔کیا داعش کے پاس ڈرون طیارے ہیں؟ یورپ اور امریکہ خطے کے اپنے ان عرب و غیر عرب اتحادیوں کے ساتھ، کہ جن کے ساتھ مل کر داعش کو جنم دیا گیا اگر تہیہ کر لیں کہ داعش کا خاتمہ کرنا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ یورپ کے لیے مشکل کام ہے۔ مگر ان کے اہداف اور ہیں۔ بالکل ایسے ،جیسے ہم نے امریکہ کے افغانستان پر حملے کے وقت دیکھے ہیں۔ کئی ایک بار لکھا۔ مکرر عرض ہے کہ امریکہ اگر چاہتا تو ڈیڑھ دو ماہ میں طالبان کی پناہ گاہیں ختم کر دیتا مگر خطے میں قیام اور جنگ کو طول دینا اس کا اصلی ہدف تھا۔آج افغانستان میں جو خانہ جنگی ہے یہ اسی امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے۔۔ کیا روسی فضائیہ کی مدد اور روس کے فوجیوں کی تکنیکی مدد سے شامی فوجیوں نے داعش سے اہم قصبہ’’ لتاکیہ‘‘ واپس نہیں لے لیا؟ کیا عراق و شام میں داعش پسپا نہیں ہو رہی؟ بالخصوص شام میں کہ جہاں بشار الاسد کا سفارتی اتحادی عسکری اتحادی کے طور پر سامنے ہے۔یورپ کو مگر اپنے عوام اور بشار الاسد کے اتحادی کو ڈرانے کے بجائے اپنی عسکری قوت کو کام میں لاکر البغدادی کے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا چاہیے کہ یہی انسانیت کے مفاد میں ہے۔یہ بحث زیادہ ضروری نہیں کہ شام کا حاکم کون ہو،بلکہ یہ زیادہ ضروری ہے کہ دنیا میں امن ہو ۔
پسِ تحریر: قارئین سے گذارش ہے کہ میری صحت و سلامتی کے لیے دعا فرمائیں آج کل علیل ہوں۔{jcomments on}
101