دارالحکومت اسلام آباد سے 35 کلو میٹر دور ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع کہوٹہ قدرتی خوبصورتی کا ایک حسین شاہکار ہے. چاروں اطراف میں سرسبز پہاڑوں کا دلکش منظر کہوٹہ کی زینت کو چار چاند لگاتا ہے. کہوٹہ ضلع راولپنڈی کی ایک قدیم تحصیل ہے.کہوٹہ آباری اور رقبے کے لحاظ سے ایک قصبے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بہت سارے عوامل کہوٹہ کی اہمیت کو پاکستان کے بڑے شہروں سے زیادہ نمایاں بنا رہے ہیں2008ء کی مردم شماری کے مطابق تحصیل کہوٹہ کی آبادی تقریباً 160,000 تھی جو کہ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے.انتظامی امور کے حوالے سے تحصیل کہوٹہ چودہ یونین کونسلز پر مشتمل ہے جن میں یوسی نڑرھ، پنجار، کھڈیوٹ، دوبیرن خرد، مواڑہ، مٹور، نارہ، بیور، لہڑی، ہوتھلہ، دکھالی، کھلول، کہوٹہ I اور کہوٹہ II شامل ہیں.مختلف دیہاتوں سے روز بہت سے افراد کاروباری مقاصد خریدوفروخت اور دیگر وجوہات کی بنا پر کہوٹہ کا رخ کرتے ہیں جس سے کہوٹہ بازار کافی بارونق نظر آتا ہے. اے کیو خان سرچ لیبارٹریز کا تحصیل کہوٹہ میں واقع ہونا اس کی اہمیت اور حساسیت کو مزید بڑھا دیتا ہے.سر زمین کہوٹہ کو یہ فخریہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے وطن عزیز کو ایٹمی قوت بنانے میں اہم ترین کردار ادا کیا.ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اس ایٹمی پروجیکٹ کا سنگِ بنیاد رکھا گیا. 1974 میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس پروجیکٹ کا حصہ بنے.انتہائی قابلیت اور اعلی کارگردگی کی وجہ سے آپ کو 1976 میں ڈائریکٹر کے منصب پر فائز کر دیا گیا.قائدِاعظم اور دیگر اعلی شخصیات کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے آپ نے بھی وطن عزیز کے ساتھ مخلص ہونے کا ثبوت دیا لیکن اس کم ظرف قوم نے آپ کو حقیقی معنوں میں وہ عزت نہ دی جس کے آپ حقدار تھے.خیر یہ ایک الگ موضوع ہے کہوٹہ کی سیاست کے بارے میں بات کی جائے تو ماحول کافی گرم نظر آتا ہے.ماضی سے لے کر اب تک بہت سی سیاسی شخصیات سرزمین کہوٹہ جنم دے چکی ہے.موجودہ حکومت میں چیئرمین مسلم لیگ ن راجہ ظفر الحق ایم پی اے راجہ محمد علی اور سابقہ حکومت سے محترمہ مہرین انور راجہ قابلِ ذکر شخصیات ہیں.ان کے علاوہ بہت سی نامور سیاسی شخصیات کہوٹہ سے ملکی سیاست کا حصہ رہی ہیں. وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی این اے 50 سے منتخب وزیر ہیں.آپ کا تعلق پڑوسی تحصیل کوٹلی ستیاں سے ہے.سیاست کے علاوہ تحصیل کہوٹہ کی پاک افواج میں اعلی عہدوں پر نمائندگی ہو رہی ہے.اے کیو خان سرچ لیباٹریز کا تحصیل کہوٹہ میں واقع ہونا اس کو تمام تحصیلوں پر فوقیت دیتا ہے لیکن ترقیاتی امور اور دیگر سہولیاتِ زندگی کا جائزہ لیا جائے تو تحصیل کہوٹہ کو کوئی نمایاں برتری حاصل نہیں ہے.تحصیل کلر سیداں جو کہ تحصیل کہوٹہ کی نسبت عرصہ دراز کے بعد تحصیل بنائی گئی مگر بہت سارے ترقیاتی منصوبوں کی بدولت ترقی کی صف میں آگے نظر آتی ہے.وسیع کشادہ سڑکیں، مانکیالہ ریلوے کراسنگ پر پل کی تعمیر، بجلی و گیس کی گردونواح کے دھاتوں میں مکمل فراہمی، اے سی ٹرانسپورٹ سروس اور ریسکیو 1122 جیسی سروسز کا تحصیل کلر میں دستیاب ہونا وہاں کی سیاسی شخصیات کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے تحصیل کہوٹہ اور مضافات کے دیہات سے روزانہ ہزاروں افراد مختلف مقاصدِ زندگی کے تحت راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں.سہالہ ریلوے کراسنگ پر روزانہ گھنٹوں پھاٹک بند رہنے کی وجہ سے عوام تاخیر کا شکار ہوتے ہیں.نہ صرف کہوٹہ بلکہ کشمیر جانے والی آمد و رفت سالوں سے شدید مشکلات کا سامنا کرتے آ رہے ہیں لیکن اس مسلئے کے حل میں تاحال کوئی پیشرفت ہوتی نظر نہیں آ رہی.سڑکوں کی بات کی جائے تو تحصیل کہوٹہ سے راولپنڈی کی طرف نکلنے والی شارع پر دونوں اطراف سے چلنے والی تیز رفتار ٹریفک کے باعث اکثروبیشتر حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن شاید اعلٰی حکام کسی بڑے حادثے کا انتظار کر رہے ہیں۔’’ابرِ کرم کبھی کبھی زحمت بن جاتا ہے‘‘ اس کہاوت کا عملی مظاہرہ کہوٹہ شہر کی کچھ سڑکوں پر دیکھنے کو ملتا ہے.بارش ایک دن کی لیکن سڑکوں پر کیچڑ کئی دن کہوٹہ کی عوام کی قدم بوسی کرتا ہے.بجلی کی ترسیل تقریباً مکمل ہے مگر یوسی نڑرھ کے کچھ حصے ابھی تک موم بتی کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں.یوسی مواڑہ اور یوسی مٹور کیلئے سوئی گیس کی فراہمی کا منصوبہ کافی تاخیر کا شکار رہا.بالآخر اس پر کام جاری ہو چکا ہے.یہ منصوبہ تیزی سے تکمیل کی جانب رواں دواں ہے.کافی دیر کر دی مہرباں آتے آتے.خیر! دیہات کی عوام کیلئے یہ امر باعثِ مسرت ہے.تحصیل کہوٹہ میں صرف ایک سرکاری ہسپتال ہے جو مریض کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں کا راہ دکھانے کی ذمہ داری بخوبی سرانجام دے رہا ہے.گزشتہ سال گاوْں مواڑہ کا رہائشی ایک بچہ سانپ کا شکار ہوا. پوری تحصیل کہوٹہ کے کسی سرکاری یا نجی ہسپتال سے زہر کے خلاف مدافعت پیدا کرنے والی ویکسین نہ مل سکی اور بچہ دم توڑ گیا. برسوں کی روایت نبھاتے ہوئے تحصیل بھر کے ہسپتال بڑے شہروں کی راہ دکھاتے رہ گئے اور ایک ننھی جان انتظامیہ اور دیگر اتھاڑیز کو شرمسار کر گئی.تعلیم کے حوالے سے دیکھا جائے تو کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا.ڈگڑی لیول کی تعلیم کے لیے دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے.ملکِ پاکستان کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والی تحصیل کہوٹہ کو کالجز اور یونیورسٹیز کا گھر ہونا چاہئے تھا مگر سوائے دو ہائی سکولز اور دو سرکاری کالجز کے کہوٹہ کو صرف ادھورے وعدے ملے.اب ہر بات کا شکوہ یہاں کی سیاسی شخصیات اور دیگر اعلٰی حکام سے کیا کرنا.” جب توقع ہی اٹھ گئی غالب ! کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی ” نجی سکولز خصوصی طور پر عظیم گروپ آف سکولز کی تعلیمی میدان میں تحصیل کہوٹہ کے دیہاتوں میں ان تھک کاوشیں قابلِ اعزاز ہیں.علاوہ ازیں کے آر ایل میں ملازمت کے حوالے سے تحصیل کہوٹہ کے مکینوں کے لیے کوئی خاص کوٹہ اب تک مقرر نہیں کیا گیا.اس زیادتی کے خاتمے کے آثار مستقبل قریب میں نظر نہیں آ رہے.یہ تمام تر مسائل یہاں کی تمام تر سیاسی شخصیات بلخصوص این اے۔50 اور پی پی۔2 کے سربراہان کی کاگردگی پر سوالیہ نشان ہے. تحصیل کہوٹہ کو اس کی اہمیت کے مطابق تمام شعبہ ہائے زندگی کی مکمل سہولیات سے مزین کیا جائے.گزشتہ برس وزیرِاعظم صاحب نڑرھ کے مقام پر تشریف لائے اور روایتی انداز اپناتے ہوئے کئی تعمیراتی منصوبہ جات کے وعدے تو کر گئے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے !{jcomments on}
120