کچھوے اور خرگوش کی کہانی تو آپ سب کو یاد ہی ہوگی، جی وہی کہانی جس میں کچھوے اور خرگوش کی ریس ہوتی ہے۔ خرگوش راستے میں سو جاتا ہے اور کچھوا ریس جیت جاتا ہے۔ کہانی کے آخر میں یہ بتایا جاتا ہے کہ مسلسل آگے بڑھتے رہنا ہی کامیابی کا راز ہے۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو کچھوے کی جیت میں کچھوے کی مسلسل آگے بڑھتے رہنے کی رفتار کی بجائے خرگوش کی نیندکا زیادہ عمل دخل تھا۔ آپ سوچیں کہ اگر خرگوش راستے میں نہ سوتا تو کیا کچھوا کبھی جیت سکتا تھا۔ نہیں بالکل نہیں، کیونکہ رفتار میں کچھوے اور خرگوش کا کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں۔ کچھوہ صرف اسی صورت میں جیت سکتا ہے کہ جب خرگوش سو جائے۔ یہ کہانی ہم نے بچپن میں پڑھی تھی اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے یہ کہانی سنی یا پڑھی نہ ہو لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس کہانی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بلکہ ہمیں تو ابھی تک یہی نہیں پتہ چل سکا کہ ہم کچھوے ہیں یا خرگوش۔ عملی زندگی میں دیکھیں تو ہمیں اس کہانی کے یہ دو کردار اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جیسے ہر سال مون سون کی بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی صورت حال بنتی ہے تو ہر طرف ایک ہی شور مچ جاتا ہے کہ سیلاب آگیا، سیلاب آ گیا، بھئی اب جبکہ سیلاب آ ہی گیا تو شور مچانے سے کیا ہو گا، جب شور مچانے اور کام کرنے کا وقت تھا تب تو آپ خرگوش کی طرح سوئے ہوئے تھے، یہ سوچ کر کہ ابھی مون سون بہت دور ہے، جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا اور جب وقت آتا ہے تو وہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ ہماری آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب سیلاب کا پانی ہمارے سر چڑھ کر ہمارا سب کچھ اپنے ساتھ بہا کرلے جاتا ہے۔ ایک مون سون سے لیکر دوسرے مون سون تک سیلاب سے بچاؤ کی منصوبہ بندی سے لے کر عملی کام کرنے اور لوگوں کی جان و مال کو محفوظ بنانے کے لئے ہمارے پاس پورا ایک سال کا عرصہ موجود ہوتا ہے، اور اس کام کے لئے ہمارے پاس تما م وسائل بھی موجود ہوتے ہیں،اگر ہم میسر وقت اوروسائل کا صحیح استعمال کر کے، سیلاب کی تباہ کاریوں کا موجب بننے والے تمام پہلووں کو ملحوظ خاطر رکھ کر جامع منصوبہ بندی کریں اور اس پر عمل کریں تو ممکن ہی نہیں کہ پھر کبھی ہم سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوں، ہم سیلاب کا صرف اسی صورت میں شکار ہوتے ہیں جب ہم اپنی ذمہ داریوں کو بھلا کر، نااہلی، کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خرگوش کی طرح سو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے تمام ادارے جاگ رہے ہوں، حالات پہ نظر رکھ کے درست اور بروقت فیصلے کر رہے ہوں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کچھوے کی رفتار سے چل کے آنے والا مون سون ہم سے جیت جائے۔ لیکن افسوس کہ اس وقت ہم خرگوش کی طرح لمبی تان کر سو جاتے ہیں کہ ابھی مون سون بہت دور ہے اور مون سون کچھوے کی رفتار سے چلتا ہوا آتا ہے اور اپنا کام دکھا کے چلا جاتا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پہ جو وسائل ہم خرچ کرتے ہیں اس سے کہیں کم وسائل خرچ کر کے ہم سیلاب کو آنے سے پہلے ہی روک سکتے ہیں۔ لیکن بات صرف سمجھنے کی ہے کہ ہمیں کچھوے کی طرف مسلسل آگے بڑھنا ہے یا خرگوش کی طرح سو کر کچھوے کے آنے کا انتظار کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح دہشت گردی کے مسائل میں بھی ہمارا کردار کچھ مختلف نہیں ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے اور دہشت گردی کو کچلنے کے لئے ہمارے پاس کئی ایک ادارے موجود ہیں جو ہر دہشت گردی کے واقعے کے بعد جاگتے ہیں ، قیمتی جانیں ضائع ہونے کے بعد گھیرا تنگ کرتے ہیں، ناکہ بندی کرتے ہیں، سرچ آپریشن کرتے ہیں، کمیٹیاں بناتے ہیں، مقدمات درج کرتے ہیں اور جو کچھ نہیں کر سکتے وہ شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، قراردادیں پاس کرتے ہیں اور پھر اگلے افسوس ناک واقع تک سو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب کام کرنے سے ان کو کون روکتا ہے، وہ چاہیں تو پورے سال یہ کام کر سکتے ہیں، گلیوں، محلوں، شہروں، دیہاتوں، غرض کہ پورے ملک میں جہاں کہیں بھی ان کو شک گزرے یہ ہر جگہ بلا تفریق آپریشن کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی افسوس ناک واقع پیش آئے پہلے سے ہی اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ ایسی قانون سازی کرسکتے ہیں کہ جس سے کوئی مجرم بچ نہ سکے۔ لیکن کیا کریں ، کہانی ہی کچھ ایسی ہے کہ خرگوش کی نیند ہی اس وقت ٹوٹتی ہے جب کچھوہ جیت چکا ہوتا ہے۔ یہ دہشت گرد کچھوے کی طرح آہستہ آہستہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں، راستہ بناتے بناتے اپنی منزل پہ پہنچ کر ہم پہ وار کر جاتے ہیں اور ہم۔۔۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں دیکھ لیں، ہمارا یہی حال ہے۔ اس سے پہلے کہ مزید دیر ہو جائے ہمیں یہ حقیقت ماننا پڑے گی کہ کچھوے کی جیت کا راز خرگوش کے سو جانے میں ہے۔ کاش کہ ہم عملی زندگی میں اس کہانی کے انجام کو کبھی بدل سکیں ، ہم جاگتے رہیں اور کچھوے کی طرح آگے بڑھنے والے سیلابوں اور دہشت گردوں کو کبھی جیتنے نہ دیں۔{jcomments on}
98