ساری تدبیریں اُلٹی ہو گئیں، ”کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں“۔ اصل مجرموں، ذمہ داروں کا نام سامنے لانے کی کوشش، اقتدار جان وغیرہ سب کھوسکتے ہیں۔ 1951ء سے 2022ء، حکمرانوں سیاستدانوں کی اُکھاڑ پچھاڑ بلا تفریق لیاقت علی خان، بھٹو، نوازشریف، عمران خان وغیرہ ایک طویل فہرست موجود، موجودہ اور آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک سبق۔ ”سیاست نہیں ریاست بچاؤ“ پروجیکٹ 2014ء سے آغاز ہوا، نوازشریف کی اُکھاڑ پچھاڑ اصل وجہ بنی کہ بظاہر عمران خان کو مسند اقتدار پر پہنچا کر اقتدار اسٹیبلشمنٹ نے ہتھیانا تھا۔ لیاقت علی خان، ضیا الحق، بینظیر بھٹو کی شہادت ہو یا بھٹو کی پھانسی، خواجہ ناظم الدین سے بھٹو یا نوازشریف یا عمران خان وغیرہ کی وزارتِ اعظمیٰ سے معزولیاں، ہر مسئلے میں اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کے اپنے اپنے مفادات پورے ہوئے۔عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی ہوئی تو امریکی سازش موجود تھی بشرطیکہ عمران خان بھی فراخدلی کا ثبوت دیں اور مان لیں کہ نوازشریف حکومت کو دھونس دھاندلی سے ہٹانا بھی امریکی سازش تھی“۔ ابوظبہی میں JIT کی تیاری میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کو امریکی CIA دستیاب تھی۔ نواز شریف حکومت کے خاتمے میں سیاسی عدم استحکام امریکی مفاد میں تھا۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکے یا2015 ء میں CPEC دھماکہ، ایسے سنگین جرائم ہر دو مواقع پر نوازشریف کی رُخصتی بنتی تھی۔سی پیک کا آغاز ہوا تو خطرات ساتھ لَف تھے۔ ”سی پیک کی تکمیل چین کو جان سے زیادہ عزیز جبکہ امریکہ کی جان کے لئے خطرہ ہے“۔ بحیرہ ہند، بحیرہ عرب اور خصوصاً آبنائے ہرمز بلاشرکت غیرے امریکی تسلط میں ہیں۔ گوادر پر چین کی موجودگی امریکی سمندری مفادات کیلئے ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ چین کا 80 فیصد تیل (تقریباً 13 ملین بیرل یومیہ) کی گزرگاہ بحیرہ ہند جہاں امریکہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اپنی بحری فوج کیساتھ دندناتا رہا ہے۔ لامحالہ تیل کی ترسیلات کے لئے گوادر پروجیکٹ چین کے لئے ناگزیر تھا۔ گوادر پر چین کا تجارتی اور تزویراتی کنٹرول اور پھر وہاں سے چین کو تیل کی ترسیل امریکہ کے لئے ایک دھچکا تھا۔ قطع نظر کہ سی پیک کا پہلا فیز 2020 ء میں مکمل ہوتا تو اندازاً ایک ملین بیرل یومیہ تیل کی ترسیل براستہ سی پیک آغاز ہو جاتا۔وطن عزیز میں امریکی دخل در معقولات کی سب سے بڑی سہولت کار ہمیشہ سے ہماری اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ابوظبہی میں CIA ہیڈ کوارٹر سے ISI کے گہرے روابط ہیں۔ 1954 ء کاسیٹو معاہدہ، بغداد پیکٹ بعد ازاں سینٹو،پشاور بڈبیر اڈا، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کا افغان جنگ میں سینہ سپر رہنا،سب میں مماثلت ایک ہی کہ سیاسی حکومتوں کو ذبح کرنے کے بعد پاکستان کا استعمال ممکن ہوا۔ہماری اسٹیبلشمنٹ یقیناً بقائمی ہوش وحواس پاکستان کے نقصان کا سوچ نہیں سکتی۔ 7 اکتوبر 1958 میں گورنر جنرل اسکندر مرزا کا فیروزخان نون کو لکھا دل دہلا دینے والا خط آج میرے سامنے، ”جس میں وزیراعظم کی برخاستگی، آئین کی منسوخی اور مارشل لا کے نفاذ کا اعلان تھا“۔ خط عملاً 16 دسمبر 1971ء کے دن کا تعین کر گیا۔ جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے ادوار نے اس عمل کو رسماً منطقی انجام تک پہنچایا۔ 1973میں دوبارہ آئین ملا تو آنے والی اگلی پانچ دہائیوں میں دو مارشل لا سمیت ہر آنے والی حکومت کو ماورائے آئین اقدامات کے تابع رکھا گیا۔تمام”غیر آئینی کر توتوں“ کے باوجود (2014 ء
کا دھرنا بھی ہو چکا تھا) 2015 ء میں چینی صدر کی آمد پر سی پیک معاہدوں پر دستخط نے اُمید کی ایک مضبوط لہر پھر سے پیدا کر دی۔ سی پیک کو کامیاب بنانے کے لئے اور چینی سرمایہ محفوظ بنانے کے لئے چین نے پاکستان کے لئے تین ترجیحات کو اپنا رہنما اُصول بنایا۔ سیاسی استحکام، خوشحالی اور پُر امن پاکستان کہ چین کی اپنی ضرورت تھے۔ 70سالہ تاریخ شاہد کہ پاکستان کی بدحالی، عدم استحکام اور افراط و تفریط میں امریکی محنت و مشقت موجود ہے۔سی پیک نے پاکستان کو ساتویں آسمان پر پہنچانا تھا۔ آنے والی دہائی میں سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کاری مقدر بننی تھی۔ امریکہ کا مقصد تب ہی حل رہتا ہے اگر سیاسی عدم استحکام اور حکومتی اُکھاڑ پچھاڑ ہمارا اوڑھنا بچھونا رہے۔ سیاسی عدم استحکام کیلئے اسٹیبلشمنٹ ہمہ وقت تیار اور مستعد کہ اقتدار پر اُن کی رالیں ٹپکنا کبھی بند نہیں ہوئیں۔ 2014 ء سے 2018 ء کے سیاسی جنگ و جدل نے خاطر خواہ نتائج دئیے۔ نواز شریف رُخصت ہوا تو اقتدار اسٹیبلشمنٹ کی جھولی میں اور CPEC امریکی خوشنودی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ پاکستان کے استحکام، خوشحالی اور امن و امان کا ایک اور موقع گنوا دیا گیا۔عمران خان جیسے مہرے کو اقتدار ملا تو اقتدار سنبھالتے ہی حکومتی وزراء کا پہلا اعلامیہ ”سی پیک کچھ سالوں کیلئے معطل رکھا جائے گا“۔ دوسری طرف IMF اور FATF کا ٹریپ پہلے سے تیار تھا،”لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا“۔عمران خان کی تحریک دو آتشہ!پُر تشدد عدم استحکام رواج پا چکی جبکہ رائے عامہ کو اداروں کے خلاف بھڑکا رکھا ہے۔ 1971ء سے سو فیصد مطابقت ہے۔ پہلے دن سے یقین عمران خان کو الیکشن سے زیادہ انارکی اور افراتفری میں دلچسپی ہے۔ میری بات مان لیں، عمران خان گرفتاری سے نہیں ڈر رہا۔ سو فیصد یقین کہ موصوف نے سارا ڈرامہ افراتفری اور ہنگامہ خیزی کو جلا دینے کے لئے رچا رکھا ہے۔ خاطر خواہ نتائج لے بھی رہا ہے۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی اب تک کی ساری تدبیریں ناکام بنا چُکا۔ ہر عمل، ہر آنے والا دن اگرچہ عمران خان کو الیکشن سے دور لے جا رہا ہے، عوام کے اندر باہمی انتشار اور عوام بمقابلہ ادارے تصادم مستحکم ہو رہا ہے۔عمران خان کا ہر عمل ملکی سیاست پر اس کی گرفت مضبوط کر رہا ہے۔ لانگ مارچ، اسمبلیوں کی تحلیل، گرفتاری سے بچنا سب کچھ خون گرم رکھنے اور سیاسی مہم جوئی کیلئے استعمال میں ہے۔ بظاہر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے عفریت کو قابو کرنے میں بے بس نظر آرہی ہے۔ دوسری طرف عمران خان کو معلوم ہے کہ پاکستان کو ہلکان کر کے ہی وہ طاقتور اداروں کو سرنگوں کرسکتے ہیں۔ آج پھر سے امریکہ کو عمران خان کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے کہ بربادی کا نُسخہ کیمیا عمران خان کے پاس بدرجہ اُتم موجود ہے۔ 1971 ء کے بعد دوسری دفعہ سیاسی نظام کیساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی عمران خان کے نشانے پر ہے۔1971ء میں جب پاکستان ٹوٹا تھا تو ادارے ایک عرصہ سر اُٹھانے کے قابل نہ تھے۔”کیا آج پھر کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے“۔