333

کارِ زیاں

شاہد جمیل منہاس/علم و ادّب کی دُنیا کا ایک عظیم نام کلیم احسان بٹ۔ پروفیسر کلیم احسان بٹ پانچ شعری مجموعوں کے مصنف ہیں۔ جو بھی لکھا خوب لکھا۔ اپنے تجربات کو یوں بیان کیا جیسے ابھی ہو رہے ہوں۔ پروفیسر کلیم احسان بٹ جب کبھی کسی محفل میں اپنا کلام سُناتے ہیں تو آپ کی آواز سُنائی دیتی ہے اور آپ کا قلم دکھائی دیتا ہے جو ہر لفظ کے ساتھ مچلتا کم اور تڑپتا زیادہ ہے۔ میرے سامنے اس وقت آپکی نئی آنے والی تصنیف ”کارِ زیاں“موجود ہے اور میں سوچ رہا ہوں کے کتنے ناپیدہوتے جا رہے ہیں پروفیسر کلیم احسان جیسے لوگ جو آج بھی گھمسان کی لڑائی میں جی رہے ہیں جبکہ دُنیاعیش و آرام میں مگن ہے۔ اس سے قبل آپ نے چار شعری مجموعے تخلیق کیئے اور خوب کیئے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہہ دیا کہ
رہی جو زندگی میری تو شہر ظلمت میں
چراغ بانٹوں گا اور بے حساب بانٹوں گا
اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ اس قوم اور مُلک پاکستان پر سلامت رکھے۔ آپ کے ہر شعر ی مجموعے میں کمال فن پوشیدہ ہے۔ ان میں شامل ہیں ”موسم گل حیران کھڑا ہے“ ”چلو جُگنو پکڑتے ہیں“ ”حیرت باقی رہ جاتی ہے“ اور ”پس دیوار آئینہ“۔ زیر نظر مجموعہ ”کارِ زیاں“ اس معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ثبوت زندہ رہ جاتے ہیں۔ جیسے پروفیسر کلیم احسان بٹ نے یہ مجموعہ شائع کر کے ثبوت معاشرے اور اقوام عالم کے دلوں پر ثبت دیئے ہیں۔ اب دُنیا چاہے اس شاعری کا ترجمہ کسی بھی زبان میں کرے یہ فائدے کے سوا اور کچھ دے نہ پائے گی۔ آپ کی شاعری موجودہ عہد میں مکمل طور پر گوندھی ہوئی تحریر ہے۔ آپ نے اپنی شاعری میں ایسی ظالم اور بے رحم حقیقتوں پر سے پردہ اُٹھایا کہ میں تو کم از کم ششدرسا ہو کر رہ گیا۔آپ ربّ ذولجلال سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ
تو نے ڈبویا نیل میں فرعونوں کو کبھی
تو نے لگایا ڈوبتوں کو پار اے خدا
حضرت محمد ؐ سے بے پناہ عقیدت رکھنے والی اس ہستی کو سلام۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے گُنبد حضریٰ کے سامنے فریاد کر رہے ہوں اور مکّے مدینے کی گلیوں میں گریہ زاری کر رہے ہوں کہ اے نبوت کا درد بند کرنے والے آئے روزہونے والی گُستاخیوں کو خدارا ختم کر دے کہ ہم گئے گزرے مسلمان ہی سہی مگر یہ گُستاخانِ رسول ہم سے برداشت نہیں ہوتے۔ آپکی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ
تیرا پیکر ترے اوصافِ حمیدہ لکھتا
میں ترے عہد میں ہوتا تو عقیدہ لکھتا
وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ترانہ لکھا تو روتے رہے۔ جب مکمل ہوا تو بھر روئے اور جب پڑھا تو الفاظ اور اشک برابر دوڑتے رہے۔ کوئی بھی ہارا نہیں دونوں ہی بازی لے گئے۔
دنیا میں صداقت کا علَم لے کے چلیں گے
ہم عِلم کی طاقت سے جہالت سے لڑیں گے
وطن سے محبت در اصل ان کی گھٹی میں شامل ہے جووقتاََ فوقتاََ منظرعام ہوتی رہتی ہے۔ آپ کی یہ پانچویں کتاب ”کارِ زیاں“ ہر شعر میں اپنے ہونے کا پتا دیتی ہے۔ اور یہ باور کرواتی ہے کہ معاشرے کی بے ثباتی اور بے حسی کو الفاظ میں بیان کر ڈالیں کہ جہاد بالقلم ایک بہترین جہاد ہے۔ آپ کے
ہر شعر میں بے رحم حقائق کا بر ملا اعتراف اور دلیرانہ بیان تلخ تاریخ کا حصہ بن چُکا ہے۔
ہم سے کسی یزید کے بیعت نہ ہو سکی
ہم نے نبیؐ کی آل کو رُسوا نہیں کیا
پروفیسر کلیم احسان بٹ جہاں جہاں سے گزرے اپنا تعارف بنا شور مچائے کرواتے رہے اور دُنیا کو پیغام دیا کہ سمندر خاموش ہوا کرتا ہے اور شور مچانے والے اس میں آ کر پناہ لیتے ہیں اور پھر تربیت لے کر خاموشی ساد ھ لیتے ہیں اپنے”بڑے“ یعنی سمندر کی طرح۔ کسی شاعر نے شائد کلیم احسان بٹ کے لیئے ہی لکھا ہے کہ
حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا
تارا جو کبھی ٹوٹے تو ز میں پر نہیں گرتا
معاشرے کو جب غموں کے حال اور بے بسی کے جال میں خوش رہنے کا پیغام دیتے ہیں تو خوشی کے مارے آپ کی یہ غزل پڑھنے والے رو دیتے ہیں مگر اس رونے میں اُمید بہت ہے۔
دیکھا تمہیں تو دُ کھ سا ہوا خوش رہا کرو
رو رو کے اس نے مجھ سے کہا خوش رہا کرو
سعید دوشی نے پروفیسر کلیم احسان بٹ جیسے با کردار اور بہادر افراد کے لیئے کیا خوب کہا
میں چُپ رہا تو مار دے گا میرا ضمیر مجھے
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
پروفیسر کلیم احسان بٹ نے قلم کے استعمال کا حق ادا کر دیا۔آج کل ڈھیروں میڈیا چینلز منظر عام پر آچکے ہیں مگر ان میں نشر وہی ہوتا ہے جس کے لیئے سب سے اوپر والے حُکم صادرکرتے ہیں۔ظلم کی چکی آج بھی اُسی طرح دھڑا دھڑ چلتی جا رہی ہے۔پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ
رہگز ر بند ہے دیوا ر پہ پابندی ہے
ہر گلی کو چے پہ بازا ر پہ پابندی ہے
لب ہلانے کی سزا موت بھی ہو سکتی ہے
چُپ رہو شہر میں گُفتار پہ پابندی ہے
پروفیسر کلیم احسان بٹ کی تحریروں پر اگر تحریر کرنا شروع کروں تو ہزاروں اوراق بھی کم ہیں۔ جاتے جاتے میں بس اتنا کہوں گا کہ پروفیسر کلیم احسان بٹ کا نیا شعری مجمموعہ ”کارِ زیاں“ اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے قرب کو بیاں کیا گیا ہے۔ یہ کتاب آج سے 100برس قبل اگر ایسے ہی تحریر کی جاتی تو اُس وقت بھی معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہوتی اور اگر یہی اشعار اگر آج سے 100برس یعنی ایک صدی بعد منظرعام پر آتے توخدا کی قسم مکمل طور پر معاشرے کی عکاسی ہوتی اور پروفیسر کلیم احسان بٹ کی شخصیت اور ادّبی خدمات پر ڈھیروں یونیورسٹوں میں ان گنت مقالات تحریر کر کے اس قوم کے مہمارآپ کی شخصیت اور کردار پر کام کر کے ڈگریاں وصول کرتے اور اقوام عالم میں اپنا نام کماتے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں