232

چوہدری نثار علی کی سیاسی بقاء الگ سیاسی جماعت میں‘ پروفیسر عاطف افتخار کا تجزیہ

ملکی سطح کے عوامی سیاسی رجحان کی بات کی جائے تو چوہدری نثار علی خان ان چند سیاستدانوں میں سے ہیں جو کہ اپنی جماعت کے علاوہ بھی پسند کیے جاتے ہیں اور ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ قومی سطح کے مقبول لیڈر، غلام سرورخان سے الیکشن ہار گئے؟ اس شکست کی بہت سی وجوہات ہیں جن کا جاننا ضروری ہے۔ چوہدری نثار تواتر کے ساتھ دوقومی حلقوں کے ساتھ صوبائی حلقوں سے بھی الیکشن لڑتے آئے ہیں۔ سوائے2018 کے الیکشن کے ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ چوہدری صاحب کو دونوں قومی حلقوں سے شکست نصیب ہوئی بلکہ متعدد بار چوہدری صاحب نے دنوں قومی حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ قومی سطح پر چوہدری نثار علی خان کی شکست ایک غیر متوقع خبر سے کم نہ تھی لیکن چوہدری نثار کے حلقہ مکین اس شکست کو متوقع قرار دے رہے تھے۔ اس شکست کی سب سے بڑی وجہ غیر منصفانہ حلقہ بندیاں بھی تھیں۔گزشتہ این اے باون سے چوہدری نثار کی شکست کا تصور بھی ناممکن تھا کیونکہ چوہدری نثار بہت بھاری لیڈ سے الیکشن جیتتے رہے ہیں۔ کلر سیداں اور کلر روڈ سے ملحقہ علاقوں میں چوہدری نثار کا طوطی بولتا تھا اور اس علاقے میں کسی دوسرے سیاستدان کی کوئی حثیت نہ تھی۔ نئی حلقہ بندیاں کوئی سازش تھی یا حکم خداوندی، بہرحال یہی وہ تبدیلی تھی جو کہ پہلی دفعہ چوہدری نثار اور قومی اسمبلی کی نشست کے راستے میں ایک رکاوٹ کی مانند حائل ہوئی۔ غلام سرور کبھی بھی ذاتی حثیت میں چوہدری نثار کو شکست دینے کے اہل نہ تھے بلکہ یہ تحریک انصاف یا عمران خان کے بنام وہ شخصی ووٹ تھا جو کہ چوہدری نثار کی ناکامی کا باعث بنا۔ اسی لیے غلام سرور نے ہمیشہ مقبول پارٹی کے ٹکٹ کے سہارا لیا جبکہ چوہدری نثار کے پاس اپنی ہی سیاسی جماعت کا ٹکٹ بھی نہ تھا اور ن لیگ کا چند ہزار کا ووٹ بھی قمرالسلام راجہ کی طرف چلا گیا۔ چوہدری نثار نے مقامی سیاست میں اپنے سیاسی مخالفین سے ہمیشہ شدید اختلاف رکھا۔ گزشتہ دو ادوار میں چوہدری نثار نے اول صوبائی حکومت اور بعد میں صوبائی و وفاقی حکومت کے بل بوتے پر پورے راولپنڈی ضلع میں بلا شرکت غیرے حکومت کی کہ جہاں چوہدری نثار کے کیمپ سے باہر کے لوگ ہر محاذ پر بری طرح بے بس نظر آتے تھے۔ گزشتہ ق لیگ، غلام سرور گروپ اور اسی طرح کے اور بہت سے ستائے ہو دھڑے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم تلے چوہدری نثار علی خان کے خلاف متحد ہو چکے تھے۔ چوہدری نثار کے معاونین خصوصی بھی سیاسی تبدیلوں کا بروقت ادراک نہ کرسکے۔ بھاری اکثریت سے فتح نے ہمیشہ انہیں اس زعم میں مبتلا رکھا کہ ان کی توجہ صرف ایسے پولنگ اسٹیشنز پر مرکوز رہنی چاہیے جہاں سے انہیں فتح حاصل ہوتی ہے۔ ہزاروں کی فتح کی گنتی میں وہ دوسو اور چارسو ووٹوں کو محفوظ کرنا بھول چکے تھے۔ پھر اچانک سے نئی حلقہ بندیوں کا جھرلو پھرا اور ایک ایک ووٹ قیمتی کے الفاظ پہلی بار چوہدری نثار کی زبان سے سنئے گئے۔ یہ سازش تھی یا قدرت کا انتقام بہرحال چوہدری نثار کے کیمپ میں تکبر اس قدر عروج کو پہنچ چکا تھا کہ کسی غریب دکھی دل کی فریاد نے عرش ہلانا ہی تھا اور چوہدری نثار بتدریج اپنی جماعت، اقتدار اور بالاآخرقومی اسمبلی سے بھی الگ ہو گئے۔ چوہدری نثار اور غلام سرور خان کا موازنہ کسی صورت درست نہیں۔ بطور سیاستدان اور وزیر داخلہ چوہدری نثارایک قومی سطح کے لیڈر ہیں اور سب جانتے ہیں کہ یہ مقام غلام سرور کے حصے میں کبھی بھی نہیں آ سکتا ہے۔2013 میں ن لیگ کے حکومت میں آنے کے بعد چوہدری نثار کی بطور وزیر داخلہ کارکردگی کو تحریک
انصاف، ق لیگ اور دیگر بہت سے سی سیاسی جماعتوں نے سراہا جو کہ ن لیگ کے شدید مخالف تھے۔ بطور وزیرداخلہ چوہدری نثار میڈیا کی توجہ کا مرکز رہتے تھے ان کی اہمیت اس قدر تھی کہ چوہدری نثار پریس کانفرنس کے لیے کلرسیداں کا انتخاب کرتے تو تمام الیکٹرانک میڈٰیا کلرسیداں کی طرف دوڑیں لگ جاتی تھی یہ وہ دور تھا کہ کلرسیداں تمام بڑے ٹی وی چینلز کی ہیڈلائنز کی زینت بنتا تھا۔نئی حلقہ بندیاں جہاں چوہدری نثار کی شکست کی وجہ بنتی ہیں وہیں یہ صداقت عباسی کو کی فتح پر بھی مہر ثبت کرتی ہیں۔ کلرسیداں اور اسکے گردو نواح کی یونین کونسلوں سے صداقت عباسی نے بری شکست کا سامنا کرنا تھااگر ان کے مد مقابل شاہد خاقان عباسی کی بجائے چوہدری نثار ہوتے۔ 2018کے الیکشن سے قبل چوہدری نثار کے ووٹرز میں ن لیگ کے خلاف نفرت اس قدر زیادہ ہو چکی تھی کہ ان میں سے اکثریت نے ایم این اے کی ووٹ صداقت عباسی کو دی۔عمران خان چوہدری نثار کے بہترین دوست ہیں لیکن چوہدری نثار کے لیے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتا چلا گیا اور اور الیکشن کے قریب اور مابعد از الیکشن تو ناممکن ہو چکا تھا تاہم چوہدری نثار بھی انتہائی تجربہ کار سیاستدان ہیں ان کا اپنا ایک سیاسی شعور اور ترجیحات ہیں وہ شائد ن لیگ کے اندر کسی تبدیلی کے متمنی تھے اور شہباز شریف کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم ہی سے وزارت عظمیٰ یاوزیراعلیٰ کے منصب کا حصول چاہتے تھے لیکن بعد کی صورتحال ان کے اسکرپٹ سے مختلف چلتی رہی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ نثار و شہباز بیانیہ پارٹی میں کمزور ہوتا چلا گیا۔ن لیگ میں واپسی کے دروازے بند ہوتے چلے گئے اور نثار مخالف گروہ دن بدن زور پکڑتا چلا گیا۔ وقت کا تقاضا تھا کہ چوہدری نثار علی خان اپنی الگ سیاسی جماعت کا اعلان کر دیتے۔ میری نظر میں آج بھی چوہدری نثار علی خان کی سیاست کی بقا ایک الگ سیاسی جماعت کی صورت میں ممکن ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ شیخ رشید نے اپنی انفرادی اور خود مختار حثیت کو عوامی مسلم لیگ کی صورت میں قائم رکھا ہوا ہے شیخ رشید کے برعکس اگر چوہدری نثار علی خان اپنی سیاسی جماعت تشکیل دیتے ہیں تو وہ نہ صرف بھاری اکثریت سے آئندہ الیکشن جیت سکتے ہیں بلکہ قومی اسمبلی کے بہت سے حلقوں میں انہیں اپنے ہم خیال الیکٹ ایبلز دستیاب ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں