اب تو ہر چیز پیسے کی ہو کر رہ گئی ہے یہ دور پیسے کا دور اب تو ہر چیز پیسے کی ہو کے رہ گئی ہے پیسے کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں‘تعلیم صحت خوشی غمی سب پیسے کی بدولت ہی ممکن ہے چند قدم تک جانا ہو تو پیسے کے ساتھ ہی جایا جا سکتا ہے بچوں کو تعلیم دلانے کا خواب ہو تو لاکھوں کی فیسیں ایڈوانس بینک میں موجود ہونی چاہیے تب جا کے خواب مکمل ہے ہر فنکشن کے لیئے نیا ڈریس ہر ملاقات کے لیئے الگ سوٹ,ہر روز نئی ڈشز اور اخراجات بچوں کے روزانہ کے الگ حساب سب پیسے کی بدولت ممکن ہے صحت کی بات آئے تو ہزاروں جیب میں موجود ہونے چاہیے تب کسی ڈاکٹر کا منہ دیکھا جا سکتا ہے خوشی کا موقع آئے تو ہوٹلوں کے اخراجات لاکھوں کے ملبوسات زیورات اور جہیز کے لیے ڈھیر سارا پیسہ چاہیے ہے غمی کا لمحہ آئے تو پہلی فکر مہمانوں کو ڈیل کرنے کی ہوتی ہے ان کی چائے پانی کے بندوبست وغیرہ۔اب تو رشتہ داریاں بھی پیسے کے بل بوتے پر ہی ہیں جس کے پاس دولت ہے اس سے سب کے تعلقات ہیں اور جس کا ہاتھ ذرا تنگ ہے اس سے ایک گھر کے بندے بھی اجنبی ہو جاتے ہیں ان کو منہ لگانا پسند نہیں کرتے۔(شاہدرشید)
93