پہلی جنگ عظیم 3اگست 1914کو شروع ہوئی ،اکتوبر 1914میں برطانیہ نے تیل کی سپلائی لائن کی حفاظت کیلئے فورس ڈی تشکیل دی جس کو بمبئی سے بذریعہ بحری جہاز HTواریلا سے بھیجا گیا ۔فورس میں سیپرز اور مائنرزکی 17اور22فیلڈ کمپنی بھی شامل تھی ۔کمپنی 17میں چوک پنڈوڑی کا حوالدار غلام نبی اور 22کمپنی میں پکا کھوہ کا جوان باغ علی شامل تھے ۔ 5نومبر1914کو برطانیہ نے ترکی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جس کے بعد فورس ڈی شط العرب میں داخل ہو گئی اسی دوران ہندوستان سے 6پونہ ڈویژن کا برگیڈ بھی فورس ڈی کی مدد کیلئے آگیا جس میں سیپرز اور مائزز کی 17کمپنی بھی شامل تھی جس میں چوک پنڈوڑی کا حوالدار غلام نبی بھی شامل تھا تاریخ بتاتی ہے کہ 17اور 22سیپرز اور مائزز کی دونوں کمپنیوں نے مہم میں حصہ لیا اور انفینٹری کی طرح جنگ لڑی اور اس کا عتراف بھی کرایا۔22کمپنی کے کئی سیپرز 18برگیڈ کی مدد کیلئے چنے گئے تاکہ فلائینگ پل بنایا جائے اور فوجی سازو سامان لے جایا جا سکے دریائے دجلہ اس جگہ سے 130گز چوڑا تھا اور اس کی لہروں میں خاص قوت تھی جن پانچ جوانوں نے دریائے دجلہ تیر کر پار کیا ان میں چوک پنڈوڑی کا حوالدار غلام نبی بھی تھا اور جس کی کمر میں رسی باندھ کر دوسرے کنارے تک پہنچنے تک مدد لی گئی تھی وہ22فیلڈ کمپنی کا سیپر باغ علی نمبر2480تھا اور جس کا تعلق پکا کھوہ بیول سے تھا ۔غلام نبی کو انڈین آنرز آف میرٹ تمغہ کلاس دوئم دیا گیا ۔تاریخ بتاتی ہے کہ معرکہ سلمانیہ نے ساری جنگ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا تھا اور برطانوی فوجوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔پسپائی آخر کوتل امارہ پررکی جس کا محاصرہ ترک فوجوں نے 147دن تک کیا ۔بھوک ‘پیاس اور جنگی سامان ختم ہونے پر آخر 29اپریل 1916کو برطانوی فوجوں نے ہتھیار ڈال دیے ۔پکا کھوہ کے سیپر باغ علی نمبر 2480کوتل امارہ کے محاصرہ سے چند دن پہلے زخمی حالت میں اپنے 109سابق فوجیوں کے ساتھ ہندوستان واپس بھیج دیے گئے ۔حوالدار غلام نبی کے متعلق مزید معلومات نہ مل سکیں۔سیپر باغ علی کو 1914-15اسٹار برٹش‘ وار میڈل اور وکٹری میڈل 1914-18ملے وہ 14جنوری1963کو فوت ہوئے جو میرے والد محترم تھے ۔
0300-5118133
)حوالہ شارٹ ہسٹری آف 17اینڈ 22 فیلڈ کمپنی تھرڈ سیپرز اور مائنرزانMesolotania ({jcomments on}
138