پگڑی ماضی میں پنجاب اور ہماری دیہی ثقافت کا ایک لازمی جزو رہی ہے پہلے وقتوں میں تو پگڑی کو بزرگوں کی عزت و وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا بلکہ موسمی حالات سے بچنے کے لیے بھی بزرک چادر کی پگڑی استعمال کرتے تھےانگریزی دورحکومت میں گاؤں کاچوہدری یا بااثر شخص سر پر اونچے شملے رکھتے تھے تاہم انگریزی تسلط سے آزادی کے بعد رفتہ رفتہ دیہی ثقافت میں وسعت آگئی۔
پگ اور شملہ کو گاؤں کے بزرگوں کی عظمت کا نشان تصورکیا جانے لگا یہ بات حقیقت کےخاصی قریب ترین لگتی ہے کہ ماضی کے دیہی معاشرے میں مرد اگر بغیر سر ڈھانپ کے چلے پھرے تو اسے خاصا معیوب سمجھا جاتا تھا مگر دورجدید میں نوجوان نسل اس روایت سے بہت دور ہو گئی ہے عورتوں جیسی مشابہت اختیار کرنا ہمارے مردانہ کلچر کا جزو بن چکا ہے یہی وہ قباحتیں ہیں جو معاشرے کی اخلاقی قدروں کی تنزلی کا سبب بن رہی ہیں عصر رواں میں معاشرے میں سر اٹھانے والی مروجہ نسوانی شکل وشبہات گہرائی تک معاشرے کے بگاڑ کی بدترین علامت ہے جسکو اب معاشرتی ثقافت کے تابع کرنا کسی کے بس کی بات نہیں رہی اس بحث سے قطع نظر پگڑی دنیا بھر میں مختلف انداز سے استعمال کی جاتی رہی ہے۔

مضمون نگار پوٹھوار کی ثقافت اور یہاں بسنےوالی مختلف قوموں اور قبیلوں کے بارے میں پنڈی پوسٹ میں لکھتے ہیں
ہمارے ملک کے چاروں صوبوں میں بسنے والے مرد اپنے علاقے کی ثقافت کی مناسبت سے مقامی انداز کی پگڑیاں استعمال کرتے ہیں اسے مختلف ناموں یعنی عمامہ منڈاسا پٹکہ شملہ اور پگ کہا جاتا ہے اگر ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو سر پر پگ رکھنا بزرگوں کا جاہ و جلال اور وقار وابستہ تھا اگر کوئی رشتہ طے کرنا ہو یا خاندانی رنجش کے دوران تصفیہ کرانے میں مشکلات درپیش ہوں تو پہنجائیت میں بزرگ پگڑی کو بطور آخری حربہ کے طور پر استعمال کرتے تھےکیونکہ اس دور میں بزرگوں کا پگڑی اتارنا انکی کی شان وشوکت کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔
لوگ پگڑی کا مان رکھ کر اختلافات کو بھول کر فوراً رضامندی و امادگی کا اظہار کر دیتے تھے تاکہ بزرگوں کی شان وشوکت پر کوئی آنچ نہ ائے گو آج پگڑی باندھنے کا رواج تقریباً ختم ہو چکا ہے کیونکہ سر پر پگڑی باندھنے کی روایت و ثقافت کو برقرار والے بزرگ اس دنیا سے یا تو رخت سفر باندھ چکے ہیں یا پھر چند ایک اگر باحیات بھی ہیں تو وقت کے جھمیلوں اور دنیوی پریشانیوں کے بھنور میں سر پر پگڑی رکھنے کی روایت برقرار رکھنے یاداشت کھو چکے ہیں پگڑی کو پرانے وقتوں میں مرد کی عظمت کا نشان سمجھا جاتا تھا اور پگڑی کی بڑی لاج تھی ننگے سر گھومنا پھرنا باعث ندامت گردانا جاتا تھا اسی طرح پہلے معاشرے میں عورتوں کے سر پر دوپٹہ سرکنا بھی معیوب عمل تصور کیا جاتا ۔
تاہم اس جدید اور بظاہر پڑھے لکھے معاشرے میں نوجوان سر پر پگڑی رکھنا تو درکنار وہ ٹوپی پہننا بھی بھول چکے ہیں اسلام نےجسطرح عورت کو سر اور جسم ڈھانپنے کی تعلیم دی ہے وہ بھی معاشرہ سلیقہ اور تعلیم فراموش کر چکا ہے اب سرپر پگڑی چادر یا ٹوپی پہننا یا نہ پہننا ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا پہلے وقتوں میں پگ شملہ سر پر رکھنا بزرگ اور شریف لوگوں میں عزت اور وقار کی ایک علامت سمجھی جاتی تھی جبکہ ننگے سر رہنے والے شخص کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا مگر اب تو عام زندگی میں ان چیزوں کا خیال رکھنا تو درکنار اب بعض لوگ ننگے سر نماز ادا کرتے بھی نظر آتے ہیں بلکہ ننگے سر نماز ادا کرنے کو اُنہوں نے اپنی عادت بنا رکھا ہے
حالانکہ مسجد میں ٹوپیوں بھی دستیاب ہوتی ہیں اب اس دور میں پگڑی شملہ پہننے والے 100 افراد میں سے صرف 10 فیصد لوگ ہی اس روایت کو برقرار رکھے ہوئے تاہم اس موقع پر تحصیل کلرسیداں کی ایک ایسی شخصیت کا نام نہ لینا تنگ نظری کے زمرے میں آئے گا جس شخصیت نے شملہ جیسی ہماری ثقافت کو ایک جلا بخشی ہے اور تواتر کیساتھ وہ شملہ پہنتتے ہیں اس شخصیت کا نام راجہ محمد افتخار آف بھکڑال ہے
آپ میں سے اکثر نے اس معتبر شخصیت کو دیکھا ہو گا یہ سوشل میڈیا پر بھی یہ خاصے مقبول ہیں دراز قدو قامت جاذب نظر داڑھی سے مزین خوبرو چہرہ بدن پر سفید کپڑے زیب تن کیے اور سر پر روایتی ثقافتی شملہ رکھے نفاست پسندی اورچال ڈھال میں اپنی مثال آپ ہیں یہی وہ شخصیت ہے جس نے ہمارے بزرگوں کی ثقافت کو ژندہ رکھا ہے میں جناب راجہ محمد افتخار صاحب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس دور میں دیہی ثقافت کو اجاگر کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں انکی یہ شکل و شبہاہت نوجوان نسل کو اپنی ثقافت کی جانب راغب کرنے کیلیے ایک عملی نمونہ ہیں یہ اب ہماری نوجوان نسل پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک اس ثقافت کو اپناتے ہیں انکے ساتھ سابق وفاقی وزیر داخلہ جو اس دور میں سیاست سے کنارہ کش اور گمنام ہیں
یعنی چوہدری نثار علی خان کے قریبی رفیق چوکپنڈوڑی کے نواحی گاؤں موہڑہ حیال کے رہائشی جناب چوہدری محمد آزاد مرحوم کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے اپنی تمام عمر پگڑی کو اپنے سر کی زینت بنائے رکھا وہ بھی دراز قد اور با رعب شخصیت کے حامل تھے اور جب سر پر پگڑی پہنتے تو پھر انکی شخصیت میں مزید نکھار آ جاتا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چوہدری محمد آزاد صاحب کو آپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرما کر جنت کا مکین بنائے سر پر پگڑی یا شملہ باندھنا ہمارے بزرگوں کا شیوا تھا جو ہمارے لیے ایک ثقافت کا درجہ رکھتا ہے
ہمیں چاہیے کہ ہم بزرگوں کی ثقافت کی تشہیر اور عملی تقلید کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا لیں ہمیں اپنے سر پر اس پگڑی کی لاج اور شملہ پہننے جیسی بزرگوں کے بھولے ہوئے ثقافتی ورثے کو دوبارہ سے نوجوان نسل میں عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے بزرگوں کے ثقافتی ورثہ کو نئی نسل میں عام و اجاگر کیا جاسکے شاہد کہ نوجوان نسل اس روش پر چل پڑے اور دوبارہ بزرگوں کی اس روایت کو نئی جہت مل جائ