تاریخ دان کو تاریخ رقم کرنے لکھنے کیلئے جہاں غیر جانبدارانہ رویے کی ضرورت ہوتی ہے وہیں اس کا اس معاشرے کی اچھائیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں کا واقف ہونا بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ انسان فطری طور پر عجلت پسند ہے اور جلدی کرنیوالا غلطیاں بھی بہت کرتا ہے اس لئے مجموعی طور پر انسانی معاشرے میں باطل کی تعداد زیادہ رہی ہے لیکن غالب ہمیشہ حق آیا ہے کیونکہ حق نے غالب آنا ہے اس بحث کو طوالت دیے بغیر کہ قومیں ہمیشہ بڑے ہجوم کے ساتھ چلتی ہیں بیشک وہ باطل کا ہی کیوں نہ ہو فی زمانہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاں تعداد زیادہ ہو گئی وہیں کامیابی ہو گی حالانکہ اکثر و بیشتر ایسا نہیں ہوتا کہ جیسا نظر آرہا ہو ویسا ہی ہو کئی بار اچھائیوں کے درمیان برائی ہوتی ہے اور کئی بار برائیوں کے عین درمیان اچھائی ہوتی ہے اچھائی کو کسی طور برائی سے ماپا نہیں جا سکتا اسی طرح برائی کو بھی اچھائی سے مانپا کسی طور جائز نہیں لیکن اس بحث کو اسی فقرے کے ساتھ اختتام پذیر کرتا ہوں کہ مسیحا وہی بہتر ہے جو مرض تشخیص کرنے کے بعد علاج تجویز کرے نہ کہ ادھوری مسیحائی سے ادھوری تشخیص کرکے مرض کو بڑھاوا دیا جائے مکمل علم ہی مکمل تعلیم دے سکتا ہے اورمکمل تعلیم ہی مکمل تبلیغ کر سکتی ہے ادھورا سچ پورے جھوٹ سے کئی گنا زیادہ نقصان دہ ہے انہی تمائیل کی روشنی میں شعور کے سفر طے ہوتے ہیں علم ہی شعورہے لیکن شعور کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں مثبت شعور جسمیں دانش‘اخوت‘محبت‘استقامت ہوتی ہے اس شعور سے تعمیر معاشرہ ہوتی ہے اور دوسری قسم منفی شعور ہے جس سے عداوت‘منافقت‘نفرت اور فتور جنم لیتا ہے جس سے تخریبی معاشرہ قائم ہوتا ہے یہی ہر دو شعور کی عکاسی تخلیق آدم سے سجدہ تعظیمی تک وقوع پذیر ہوئی ہے مثبت سوچ نے بلا چوں وچراں حکم خداوندی مان کر سجدہ اول کیا اور دوسرا سجدہ شکرکیااور کامیاب ٹھہرے منفی شعور کی کارفرمائی تھی کہ سب سے مقرب فرشتہ عزازئیل کہ جس نے علم یعنی شعور کو منفی استعمال کیا تخریب کار اوررو ندءِ درگاہ ء خداوندی ٹھہرا اس سے ثابت ہوا کہ علم جب شعور کی منزل تک پہنچ جائے اور مثبت ہو تو تبلیغ حق ہوتی ہے چونکہ برصغیر میں کوئی پیغمبر‘نبی اور رسول نہیں آیااس کے باوجود برصغیر میں اسلام پھلا پھولا یہ تمام محنت اور کاوش بزرگان دین کی تھی جنہوں نے اپنے مثبت شعور سے عوامی آگاہی اور آگہی کو بیدار کیا جنہیں یاد رکھنے کیلئے ہم عرس اور میلوں کا اہتمام کرتے ہیں پہلے پہل عرس اور میلے خالصتاََمذہبی جذبات اور روایات و اقدار سے مزین ہوتے تھے لیکن رفتہ رفتہ یہ روایات و اقدار کہیں کھو گئی ہیں اور ان کی جگہ فحاشی اور واہیات رسومات نے لے لی ہے برصغیر پاک و ہند میں جب ٹرانسپورٹ عام نہیں تھی سڑکیں نہیں تھیں چھکڑوں اور اونٹوں‘گھوڑوں‘خچروں پر سفر طے کیا جاتا تھا ڈالیاں سر پر رکھ کر جوتے اتار کر صاحب مزار تک میلوں پیدل سفر کیا جاتا ڈھول کی تھاپ پر ”ٹوٹے“اور ”توری“ کے ساز پر نوجوان بچے بوڑھے دھمال ڈالتے جس علاقے گاؤں یا شہر سے گزرتے لوگ حسب توفیق ڈالی میں نذرانہ ڈالتے ”موخ“ (جانوروں کی خیرات کیلئے جو چیزیں یا پیسے دئیے جاتے انہیں موخ کہا جاتا تھا)دیتے جب کسی مزار پر پہنچتے سب سے پہلے ڈالی چڑھاتے درود سلام پڑھا جاتا دعا خیر ہوتی جس کے بعد جلیبی‘امرسے‘بوندی یعنی چھوٹی مٹھائی برفی وغیرہ لیتے گھر کی مستورات کیلئے چوڑیاں‘گجرے‘پونیاں‘پراندے لیتے گھر کیلئے گھوٹنے‘مٹکے‘مٹی کے پیالے‘رکابیاں بچوں کیلئے غلے جو مٹی سے بنے ہوتے کھلونے لیتے آخر میں تربوز اور”تر“جو عموماََ سبزی ہوتی لیتے اور ٹولیوں کی شکل میں میلہ گھومتے دن بھر پہلوان کسرت کرتے پتھ اٹھانے کے مقابلے ہوتے بازو گیری‘بیل دوڑ‘کبڈی‘ڈانگ(سوٹیوں کو تلوار کی طرح استعمال کرنا)بچوں کیلئے جھولے ہوتے‘چائے خانے‘ لنگر خانے جہاں تبر کاً لنگر تناول کیا جاتا پیران عظام و مجاورین کو سال جو کی”منتیں“چڑھائی جاتیں جو مرغ سے بیل‘ اونٹوں اور نقدی تک ہوتیں جس سے درباروں کے انتظام وانصرام کا بندوبست ممکن ہوتا لوگ عموماََ غریب اور مساکین تھے لیکن باحیا اور غیرت مند تھے محبت‘پیار‘خلوص ارزاں تھا لیکن سال جو کی دشمنیاں بھی میلوں پر ختم کی جاتیں مخالفین اور دشمنوں سے ڈانگوں اور سوٹوں سے لڑائیاں بھی ہوتیں لیکن پھر بھی قدریں تھیں راضی نامے ہو جایا کرتے تھے المختصر برائیاں بھی تھیں لیکن ہمیشہ اچھائیاں غالب رہتی تھیں خالص لوگ تھے ہر کام خالص اور خلوص سے کرتے تھے جو وقت نے کروٹ بدلی نئے زمانے کے نام پر ہر شے بناوٹی اور مصنوعی ہو گئی آج کے میلے بے حیائی اور فحاشی کے علاوہ کچھ نہیں جس میں ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر قصوروار ہے اور سب سے زیادہ جاہل مجاورین اور جاہل عوام جنکو زعم ِ و علم و پارسائی بھی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دوہرا معیار اپنا لیا ہے جسے ہم اپنے لئے بہتر جانتے ہیں دوسرے کیلئے وہی۔۔ جانتے ہیں ہم منافقت کی حدوں سے آگے نکل رہے ہیں میلے اور عرس جو کبھی تبلیغ اور تفریح ہوا کرتے تھے آج موت کے کنوؤں‘چڑیا گھروں‘مجروں سے مزین ہو کر فحاشی و بے راہ روی کے اڈے بن چکے ہیں ہم اپنے اسلاف اور اکابرین اسلام کی تعلیمات سے کوسوں دور ہو چکے ہیں آج ہمارا معاشرہ ہمارے میلے عورت کی نمائش گاہ بن چکے ہیں نوجوان نسل کو تباہ کرنے کیلئے مغربی (یورپی اور یہودی)ایجنڈے پر کام زور و شور سے جاری ہے یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ میری باتیں تلخ ضرور ہیں لیکن مبنی بر حقیقت ہیں آج اگر اس بارے میں ہم نے سنجیدگی اختیار نہ کی تو ہمارا خاندانی نظام‘روایات واقدارمغرب اور مغربی دنیا سے بھی بدتر ہو جائیں گی آج میلے اور عرس ہمارے مجموعی معاشرتی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم کتنے بے حیا اور اپنے اسلاف کی تعلیمات سے ہٹ چکے ہیں چونکہ آج درباروں کے اندر غیر شرعی حرکات ہونا برا سمجھا اور جانا نہیں جاتا ہم تعظیماََ سجدے کو برا نہیں سمجھتے جبکہ ہمارے اسلام میں اللہ کے سوا سجدے کا حکم سرے سے موجود نہیں ہے جبکہ مستورات کا مزارات میں داخل ہونا ممنوع ہے جو اب عمومی رواج پذیر ہو چکا ہے کچھ مزارات ہیں جہاں عورتوں کے داخلے کی پابندی ہے کسی شریف مرد یا عورت کا میلے میں گھومنا اور وہاں سے کچھ خریدو فروخت کرنا تو درکنار وہاں سے گزرنا بھی محال ہوتا ہے جبکہ سجادگان اور مجاورین کی نظر صرف نذرانوں پر ہے اصلاح معاشرہ کیلئے چند ایک گنے چنے آستانوں اور درگاہوں کے علاوہ کسی کی کوئی مثبت کوشش نظر نہیں آرہی جس کیلئے اہل قلم نے کبھی اپنا کردار ادا نہیں کیا اور جس نے کچھ لکھنے کی کوشش کی اس پر فوراً سے پہلے فتویٰ (خود ساختہ)صادر ہو گیا میں خود گولڑہ شریف درگاہ کا مرید ہوں اور سنی حنفی بریلوی ہوں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ غلط کو غلط نہ کہا جائے غیر اللہ کو سجدہ حرام ہے غیر اللہ کا نام لیکر ذبح کیا گیا جانور حرام ہے اس پر فتویٰ موجود ہیں عرس اور میلوں پر صحت مند سرگرمیوں کے ساتھ اگر درود سلام‘قوالیوں اور سیمینار کا اہتمام کیا جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں اس تمام تحریرکے آخر میں میں صرف یہ استدعا کرتا ہوں کہ اولیاء کرام نے بہت محنت سے دین اسلام کو ہند میں تبلیغ سے پھیلایا ہے ہمارے اسلاف نے اس کیلئے لاکھوں قربانیاں دیں اور ترویج اسلام کیلئے صعوبتیں برداشت کیں ہمیں ان کی یاد یعنی عرس اور میلے اسلامی روایات واقدارکو پیش نظر رکھ کر منانے چاہیے درگاہ جہاں سے محبت امن اور رواداری کا درس جاتا تھا اب بھی جانا چاہیے اور حکومت پاکستان اور محکمہ اوقاف کو بھی اس حوالے سے خصوصی کمیٹیاں تشکیل دینی چاہے جس میں سجادگان و پیران عظام اور مجاورین کو شامل کیا جائے کہ کوئی غیر اسلامی‘غیر شرعی اور غیر اخلاقی سرگرمیاں میلوں اور عرس پر نہ ہو اور اس کیلئے ہماری اجتماعی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم بھی مشاہیر اسلام اور شعائر اسلام کو مقدس رکھنے کی سعی کریں اور درگاہوں سے منسوب لوگوں کی حمایت کریں اور اولیاء کرام کی حقیقی تعلیمات و فرمودات سے استفادہ حاصل کریں اور اصلاح معاشرہ کیلئے اپنے علم سے حاصل شدہ مثبت شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے پوٹھوہاری میلوں اور عرسوں کو تبلیغ اور تفریح کا ذریعہ بنائیں۔
216