مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر 143

پولیس کی عدم توجہی‘جرائم کی شرح میں اضافہ

معاشرات کے لگے بندھے اصول آج شکستہ ہوتے جارہے ہیں برداشت کا عنصر دھیرے دھیرے نہیں بلکہ بڑی تیزی سے مفقود ہورہا ہے۔ گلی محلوں میں ریاست سے سیاست تک افراد اشتعال کا شکار نظر آتے ہیں ذرا ذرا سی بات پر جھگڑے اور قتل وخون کی نوبت آجاتی ہے معاشرہ بے توازن ہوچکا ہے اسلحہ کی بھرمار نے سماج میں جرائم کے پنپنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے

کہا جاتا ہے کہ ہر دور کے انسان کے لیے ایک میدان عمل ہوتا ہے جہاں انسان ہرطرح کے کردار میں نظر آتا ہے رحمدل بھی اور بے رحم بھی اس وقت بے رحمی نے ہر سو ڈیرے ڈال رکھے ہیں ہمارے اندر کا گرادب بہت سفاک ہوچکا نفرت کے سیلاب تعصب کی طغیانی اور انتقام در انتقام کے سیلابوں نے

سارے بند توڑ دئیے ہیں۔خطہ پوٹھوہار جہاں کبھی محبت کے گیت گائے جاتے تھے۔جہاں کبھی امن وسکون ہوا کرتا تھا۔ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کا بے پناہ حوصلہ ہوا کرتا تھا۔آج یہا ں جنونیت عروج پر ہے چوری کاری‘راہزنی‘فراڈ اور ڈاکہ زنی تو اپنی جگہ بڑے مسائل ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہاں انسانی جانوں کا غیر محفوظ ہونا ہے یوسی بیول میں پے درپے قتل کی وارداتوں نے بیول میں بڑھتی ہوئی عدم برادشت کی کیفیت کو واضع کیا ہے کچھ عرصہ قبل سابق کونسلر چوہدری شکیل کا قتل‘زمین کے تنازعے پر ایک بے

گناہ نوجوان ہارون کا قتل حالیہ دنوں میں چوہدری عمران کا قتل نواحی علاقے جنڈ نجار میں ایک نوجوان کا معمولی بات پرقتل سینئر صحافی چوہدری اخلاق پر قتل کی نیت سے کی جانے والی فائرنگ کا واقعہ یہ سب واقعات جہاں انتہائی افسوسناک ہیں وہیں ہمارے لیے الارمنگ بھی ہیں کہ ہمارے نوجوان کس سمت بڑھ رہے ہیں جو ماحول اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ یہ بتا رہا ہے کہ خونخوار جانور صرف جنگلوں میں ہی نہیں بھرے بلکہ انسانوں کی آبادیوں میں عالی شان گھروں میں بھی بستے ہیں۔شکاری بمقابلہ شکاری‘شکار در شکار صرف جنگلی جانو ر و ں کا ہی وصف نہیں یہ وصف اور خوں ریزی حضرت آدم کے لہو میں بھی شدت سے مو جز ن ہے کہنے کو تو انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن جب یہ آپے سے باہر ہوجائے تو اس کی ذات حیوان سے بھی بری ہے بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی حقیت موت ہے۔ زندگی نا پائیدار نامہربان ہے لیکن ہمیں یہ درس بھی دیا گیا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا
قتل ہوتا ہے بیول اور گرد ونواح میں جرائم
پنپنے کی ایک بڑی وجہ پولیس کی نااہلی اور نالائقی ہے جو کرائم کنڑول کرنے میں ناکام ہے اس پرامن علاقے میں زہر اس وقت پھیلا جب غیر مقامی لوگوں کی یہاں آمد کا سلسلہ شروع ہوا پولیس نے روایتی نااہلی کا مطاہرہ کرتے ہوئے قانون کرایہ داری ایکٹ پر عمل نہیں کروایا۔جس کے تحت ان کو یہاں رہائش فراہم کرنے والوں مقامی لوگوں کو ان غیر مقا می افراد کے کوائف تھانے میں جمع کر وا نے کا پابند نہیں کیا گیا قانون کو لتاڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں جسم فروشی کے اڈے قائم ہوئے خصوصاًملتان اورمظفر گڑھ سے آنے و ا لے کچھ خاندان اس حوالے سے کافی شہرت ر کھتے ہیں

جن کے سربراہ از خود اس مکروہ د ھند ے میں ملوث ہیں منشیات فروشی کے علاوہ چو ر ی چکاری اور ڈاکہ زنی کو بھی فروغ ملا جبکہ کرایے کے قاتل بھی باآسانی دستیاب ہونے لگے اگر پولیس اپنی توجہ مال حرام جمع کرنے سے ھٹا کر فرائض کی ادائیگی پر مرکوز کرلے تو کوئی وجہ نہیں کہ گوجر خان اور ارد گرد کے علاقوں میں امن وسکون نہ ہو میں تو کشتی نوح کے انتظار میں ہوں اور اس انتظار میں میری بینائی دھندلا چکی ہے میں اپنے اندر طوفان برپا کرنے والے تباہ کن پانیوں کے افقوں میں اپنی امید ڈھونڈ رہا ہوں مگر وہ مجھے دیکھائی نہیں دے رہی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں