columns 193

پاکستان کی معاشی صورت حال

حکومت اور آئی ایم ایف کا معائدہ جو کورونا کے باعث معطل ہو گیا تھا اب دوبارہ بحال کر دیا گیا ہے اور 25مارچ کو آئی ایم ایف نے حکومت کو پانچ سو ملین ڈالر کی قسط بھی ادا کر دی ہے لیکن اس معائدے میں حکومت نے آئندہ بجٹ میں آئی ایم ایف سے ایک ہزار دو سو بہتر ارب روپے اضافی ٹیکسز کی وصولی کا وعدہ کیا ہے جو ہماری جی ڈی پی کا تقریباََتین فی صد بنتا ہے اس طرح ایف بی آر کا ٹیکس ہدف رواں مالی سال 2020-21میں 496ارب روپے اور2021-22کے مالی سال میں یہ ہدف 6235ارب روپے ہو گا جو موجودہ مالی سال کے مقابلے میں چھبیس فی صد زیادہ ہے اور کورونا وبا کے دوران اس قدر ریونیو کی وصولی ٹیکس دہندگان پر بڑا بوجھ ثابت ہو گا اس کے علاوہ حکومت کو رواں مالی سال کے باقی تین مہینوں میں پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے چھ سو سات ارب روپے اور آئندہ بجٹ میں پانچ سو دس ارب روپے اضافی حاصل ہوں گے لیکن ٹیکس ہدف حاصل کرنے کی صورت میں حکومت کو ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی کرنا پڑے گی جس سے جی ڈی پی گروتھ میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہو گا جس کی بنیاد پر آئی ایم ایف نے اس سال پاکستان کی معاشی گروتھ 1.5سے دو فی صد اور مہنگائی یعنی افراط زرکی شرح نو فی صد رہنے کی پیشن گوئی کی ہے آئی ایم ایف معائدے کی رو سے حکومتی آرڈینس کیلئے اپریل 2021سے جون 2023تک بجلی کے نرخوں میں چھ مرحلوں میں 884ارب روپے صارفین سے وصول کئے جائیں گے آرڈینس میں حکومت نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کیلئے دس فی صد اضافی سرچارج بھی لگایا ہے جس سے بجلی کے نرخوں میں سات فی صد اضافے سے صارفین پر 934ارب روپے کا بوجھ پڑے گا اسی طرح بجلی کے ساتھ گیس کے نرخوں میں بھی اضافہ آئی ایم ایف معائدہ کا حصہ ہے آئی ایم ایف معائدے کی دیگر شرائط پر عملدرآمد کیلئے صدر پاکستان نے انکم ٹیکس ترمیمی بل 2021 آرڈینس جاری کیا ہے جس کے تحت جولائی 2021سے ایک سو چالیس ارب روپے سالانہ چھتیس مختلف شعبوں پر ٹیکس استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے جس میں آئی پی پیز اور این جی اوز کو حاصل ٹیکس استثنیٰ بھی شامل ہیں رواں مالی سال کے دوران پاکستان کو مجموعی طور پر24.9ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ آئندہ مالی سال 2021-22میں 23.6 ارب ڈالر واپس کرنے ہوں گے جن میں پریس کلب کا واجب الادا 547 ملین ڈالر کا قرضہ‘نان پریس کلب کے873ملین ڈالر کرقرضے‘ملٹی لیٹرل اداروں کے 33.74 ارب ڈالر کے قرضے4.63ارب ڈالر کے کمرشل قرضے 583ارب ڈالر کے پاکستانی بانڈزاور آئی ایم ایف کا آرایف آئی ملا کر 7.49ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں نان پریس کلب کے تحت چین کو 18.2ارب ڈالر‘سعودی عرب کے 954ملین ڈالر‘متحدہ عرب امارت کے 12.2ارب ڈالر کے قرضے شامل ہیں ان قرضوں میں ادھار تیل کی ادائیگی بھی شامل ہے واضح رہے کہ پاکستان کے مجموعی قرضے ایک سو پندرہ ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں جو جی ڈی پی کا نوے فی صد ہیں 2022تک یہ قرضے جی ڈی پی کے چورانوے فی صد تک پہنچ سکتے ہیں جبکہ پاکستان کے قرضوں کی حد کے مطابق انہیں ساٹھ فی صد تک ہونا چاہیے موجودہ صورت حال میں حکومت نے حال ہی میں 10.5اور تیس سالہ مدت کیلئے اونچی شرح سود پر 2.5ارب ڈالر کے یوروبانڈز کا بھی اجرا کیا ہے آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی صورتحال کو چار بڑے خطرات ہیں کورونا وبا اور عالمی غیریقینی معاشی صورت حال سے پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ ایکسپورٹ اور ترسیلات زر متاثر ہو سکتی ہیں
دوسرا قرضوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ‘تیسرا ایف اے ٹی ایف کے الیکشن پلان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام پر اثر جس سے نئے قرضوں کے حصول اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے چوتھا تیل کی قیمتوں میں اضافہ جس سے سرمایہ کاروں پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ملکی سیاسی صورتحال بھی معاشی گروتھ پر اثرانداز ہو سکتی ہے موجودہ بجٹ خسارہ مالی سال کے آخر تک 8.5فی صدکی خطرناک سطح تک پہنچ سکتا ہے جبکہ آئی ایم ایف کا ہدف 5.5فی صد ہے وزیراعظم پاکستان نے اپٹما اور دیگر ایکسپورٹرایسوسی ایشن کے مطالبے پر ایکسپورٹرزکو بجلی اور گیس کے رعایتی نرخوں کا جون 2021تک ایک پیکیج دیا تھاجس سے ہماری ایکسپورٹس بڑھنا شروع ہوئی ہیں لیکن آئی ایم ایف کے معائدے کے بعد ٹیکسٹائل پالیسی میں مستقبل کیلئے اس رعائتی پیکیج کو منظور کرانا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہو گاجس کی وجہ سے ٹیکسٹائل پالیسی کا اعلان فی الحال موخر کر دیا گیا ہے پاکستان خطے میں سب سے سستا ملک مانا جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں عام آدمی دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گیا ہے ہمارے آدھے سے زیادہ ریونیو قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم‘ صحت‘پینے کے صاف پانی اور سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات پورے کرنے کے بعد ہمارے پاس فنڈ ڈستیاب نہیں ملکی قرضوں کے باعث 2011 میں ہر پاکستانی چھیالیس ہزار روپے‘2013میں اکسٹھ ہزار روپے اور آج ایک لاکھ پچہتر ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے ہم اپنی موٹرویز‘ائیرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے قرض دینے والے ممالک اور عالمی اداروں کو گروی رکھ چکے ہیں حکومت کو چاہیے کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے ایک واضح حکمت عملی ترتیب دے جس کے تحت مہنگے شرع سود کے قرغے ترجیحی بنیادوں پر واپس کئے جائیں تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں پر قرضوں کا بوجھ کم کر سکیں اور ہمارہ ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں