پاکستان کو حاصل کرنے میں مسلمانوں نے اپنی جان مال اور عزت تک نچھاور کی۔لازوال قربانیوں کے بعد یہ آزاد ملک حاصل ہوا۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس ملک کی بھاگ ڈور زیادہ تر ڈکٹیٹرز کے ہاتھوں میں رہی۔لیکن پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لیے سیاست دانوں کو بھی کافی مواقع ملے ہیں ۔لیکن بدقسمتی سے پاکستانی عوام آج بھی انتہائی پسماندگی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔میاں محمد نواز شریف کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ایک ڈکٹیٹر نے عنان حکومت سنھبالا تو جہاں ایک طرف تمام مفاد پرست اور چڑھتے سورج کے پجاریوں نے فرد واحد کے ہاتھوں پر بیت کر لی اور میاں محمد نواز شریف کو نہ صرف پیٹھ دکھائی بلکہ نواز شریف کے گن گانے والوں نے طرح طرح کی نکتہ چینیاں شروع کر دی۔اس وقت بھی دوسری جانب مسلم لیگ ن کے چند ایک سیاست دان تھے جن کے اعصاب مضبوط رہے اور انھوں نے مسلم لیگ ن کے بچے کچھے لوگ کہ اپنی راہنمائی میں رکھا۔راولپنڈی میں چوہدری نثار علی خان ،راجہ ظفر الحق ،چوہدری تنویر جیسے چند نام ایسے تھے جو اس وقت بھی نواز شریف کی محبت میں سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔چوہدری نثار علی خان کی سحر انگیز شخصیت کے لیے اس وقت ملک کا وزیر اعظم بننا کوئی دشوار کام نہ تھا۔بلکہ یہ کہا جائے توغلط نہ ہو گا کہ چوہدری نثار علی خان جیسے دیانت دار اور محب الوطن سیاست دان سے سیاسی تجرنے کی بنیاد پر وزارتوں کے فیصلے کرائے جاتے۔لیکن چوہدری نثار علی خان کے لیے عہدے اور پیسہ آغاز سیاست سے ہی اہمیت کا حامل نہیں رہا ۔یہی وجہ ہے کہ آج چوہدری نثار علی خان کے بدترین سیاسی حریف بھی چوہدری نثار علی خان پر دیانت داری کے حوالے سے انگلی اٹھانے کی جرات نہیں کر سکتے۔میاں محمد نواز شریف پر پاکستانی عوام نے 2013 میں ایک بار پھر اس امید کے ساتھ اعتماد کیا۔کہ میاں صاحب پاکستانی عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گئے۔راقم کا تعلق مسلم لیگ ن یوتھ ونگ سے ہے۔اور ہر مشکل ترین دور میں ہمارے قدم بھی اپنے قائد چوہدری نثار علی خان کی طرح کھبی نہیں ڈگمگائے۔آج میاں محمد نواز شریف کے پاس بلاشبہ کام کرنے کے لیے اچھی ٹیم موجود ہے۔اور میاں محمد نواز شریف اپنی ٹیم کے ارکان سے اگر مطمئن نہیں ہیں تو فوری طور پر جس رکن پر تحفظات ہیں اس کی ذمہ داریاں تبدیل کر دی جائیں ۔اگر چہ توانائی بحران پر بہت کام کیا جا رہا ہے لیکن سرد ترین موسم میں بجلی کی کثرت سے بندش بھی اپنی جگہ لمحہ فکریہ ہے۔آج پاکستانی قوم پٹرول کے بحران میں اس قدر پھنس چکی ہے کہ ہر طرف پٹرول کا واویلا ہے۔میں بحثیت کارکن مسلم لیگ ن میاں صاحب سے اتنی گذارش ضرور کروں گا کہ پٹرول بحران پیدا کرنے والے عناصر کو معطل کر دینے سے قوم کو پہنچنے والی اذیت کا زالہ ممکن نہیں ہے۔اس قوم کو پنچنے والی اذیت کا ازالہ تو تب ہی ممکن ہے جب پٹرول بحران میں اربوں روپے کمانے والے کرپٹ لوگوں کو قوم کے سامنے لایا جائے۔اور اس بحران سے لوٹا ہوا پیسہ واپس قومی خزانے میں جمع کرائے جائیں۔میاں محمد نواز شریف پٹرول بحران کے جلد خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر جو کاوشیں کر رہے ہیں وہ قابل تحسین ہیں لیکن حکومت ذمہداروں کا تعین کر کے سزا دینے کے بعد ہی قوم کے سامنے سرخرو ہو سکتی ہے،ملک بھر میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان کے پی کے کو ان پانچ سال میں ماڈل صوبہ بنا کر اگلے الیکشن میں قوم کے سامنے اپنی پانچ سالہ کارکردگی کو رکھ کر پھر میاں برادران کی تین بار حکومت میں رہنے کے بعد والی کارکردگی کو چیلنچ کرتے۔میاں محمد نواز شریف کو بار بار ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کے جو مواقع قدرت فراہم کر رہی ہے ایسے مواقع تاریخ میں بہت ہی کم راہنماؤں کو میسر آئے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے آج پاکستان اور پاکستانی قوم کو ایسا قومی راہنما میسر نہیں آ سکا جو صرف اور صرف پاکستان کی بہتری کے لیے دن رات کام کرے۔میاں محمد نواز شریف کے پاس بلاشبہ ایک دیانت دار اور قابل وزراء کی ٹیم ہے لیکن آج میاں صاحب اقربا پروری،سفارش، اور دیگر معاشرتی برائیوں سے مکمل طور پر نہ صرف خود کو پاک کر لیں بلکہ ہر ادارے کو اس سے محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کریں۔اسی میں میاں برادران کی سیاست کی بقاء اور پاکستان کی بقاء ہے۔{jcomments on}