فائزہ عابد جعفری
پرانے، درحقیقت سہانے وقتوں کی بات ہے کہ جب جون جولائی میں ہمیں گرمیوں کی چھٹیاں ہوا کرتی تھیں تو حقیقتا چھٹیاں ہی ہوا کرتی تھیں، سکول سے
ملا چھٹیوں کا کام یا تو ہم پہلے دس دن میں ہی ختم کر لیا کرتے تھے یا پھر آخری پانچ سات دنوں کے لئے بچا چھوڑتے تھے اور باقی کے شب و روز کچھ اہم امور کی انجام دہی کے لئے سرگرداں رہتے تھے۔گڑیوں سے کھیلتے ،اینٹوں اور ریت کے گھر بناتے،اخبارو ںیا شاپنگ بیگز کی پتنگیں بناتے جو بعد میں کسی نہ کسی فنی خرابی کے باعث اڑان نہ بھر پاتیں،پانی والے پستول میں پانی بھر کر چور سپاہی کھیلتے، مٹی کے برتن بناتے، مرے ہوئے چڑیا کے بچے کا مقبرہ تعمیر کرتے اور پھر اسکا عرس بھی مناتے، گڑیا کی شادی کرتے تو کھانے کی دعوت کے لئے پانچ دس روپے بڑوں سے لینے کے بعد باقی چندہ شادی پہ بلائے گئے مہمانوں سے بطور اینڑی وصول کرتے اور نام سلامی کا دیتے۔گڑیا کو کبھی رخصت نہیں کیا جاتا تھا کیوں کہ اسکے بال خراب ہونے اور رنگ میلا ہونے سے پہلے ہم نے کئی بار اسکی شادی کرنی ہوتی تھی، گھر والوں سے پیسے مانگ کے غلے میں ڈالتے اور اگلے ہی دن غلہ الٹ پلٹ کر پیسے نکالتے اور سر پٹ بھاگتے قلفی والے کے پیچھے ۔ساون کی برسات ہوتی تو صحن میں مچھلی بن کے پھسلتے ، بارش کے بعد کاغذ کی کشتی اور کبھی کبھی اپنی پلاسٹک کی جوتی گلی سے گزرتے تیز بہاؤ والے پانی میں بہا کے دور تک اسکا تعقب کرتے ۔۔ عصر کے بعد جب سپارہ پڑھنے جاتے توکوشش سب کی یہی ہوتی تھی آج مولوی صاحب کو پتہ ہی نہ چلے اور ہم ایک کی بجائے دو آیتیں سنا دیں اورجلدی جلدی قرآن پاک ختم کریں اور سب پیچھے ہی رہ جائیں، سپارہ پڑھ کے بھاگتے ٹی وی کے آگے بیٹھنے کے لئے اور PTV پر عینک والے جن کو انسانیت کی خدمت کرتے دیکھ کے محظوظ ہوتے، رات کو کھانے کے بعد پکڑن پکڑائی یا چور سپاہی کھیلتے اور آخر لڑ بھِڑ کر سو جاتے۔ یہ الگ بات تھی کہ اگلے آفتاب کے ساتھ ایک ہی نیام سے طلوع ہوتے اور پھر سے انھیں کاموں میں مشغول ہو جاتے، نہ ٹیوشن والی باجی کی طرف سے روز روز کے ٹیسٹ کا خوف ہوتا تھا نہ سیکنڈ شٖفٹ میں امی جی کی زیرِ نگرانی Summer Task(چھٹیوں کا کام)کرنے کا ڈر۔نرسری تک تین اور اول جماعت کے بعد زیادہ سے زیادہ چھ کتابیں اور چھ ہی کاپیاں ہو اکرتی تھیں ، چھ میں سے پانچ کتابیں اردو میں ہوا کرتی تھیں اسلئے یاد کرنا اور ٹیسٹ دینا ہمارے لئے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوا کرتا تھا، نہ ہی ہم پر فرنگی زبان کو اسقدر مسلط کیا گیا تھا کہ ہم اردو کا سبق یاد کرنے میں شرم محسوس کرتے، گو یا بوجھ ا’ٹھانے والے گدھے کی سی صورتحال بالکل نہیں تھی، یعنی تعلیم کے نام پر ذہنی اور جسمانی قید با مشقت ایسی نہیں تھی جیسی آج ہے۔ ہماری ماؤں کا بھی دل کرتا تھا کہ انکے بچے لائق بنیں، پڑھ لکھ جائیں مگر ہماری ماؤں کو فرسٹ سیکنڈ کی ریس کا اتنا علم نہیں تھا جتنا آج کی دور اندیش ماؤں کو ہے۔ہمیں تو والد صاحب سکول میں داخل کروا کے آتے تھے اور سارے تعلیمی امور کے ذمہ دار بھی خود ہی ہوتے تھے جبکہ مائیں اپنی ذمہ داری سنبھالتی تھیں یعنی ہمیں اخلاقیات کا سبق پڑھانا، سکول سے پڑھا ہوا سبق شام کو اپنی نگرانی میں دوہرانااور ہمارے آرام کا خیال رکھنا۔ آج کے دور میں جب کے سکولنگ بھی ایک انڈسٹری بن چکی ہے، بچوں کے لئے سکول کے انتخاب کا فیصلہ خالصتا خواتین کے ذمہ ہے، اور خواتین کے ان فیصلوں کا محرک صرف یہ ہوتا ہے کہ ’ میرا بیٹا یا بیٹی فلاں کے بچوں سے زیادہ نمبر لے‘حلانکہ اگر مقصد کا تعین سوچ سمجھ کر اور کسی شرط، یا ریس میں شامل ہونے کی نیت کے بغیر کیا جائے تو یہی خواتین اپنے بچوں کے لئے بہترین راہ چن سکتی ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہو جائے تو یہ دور اندیش خواتین اپنی رشتے دار محلے دار خواتین کے سامنے شیخی کیسے بھگاریں گی کہ دیکھو میرا بیٹا فلاں انگلش میڈیم سکول سے جہاں ڈھائی سال کی عمر میں داخل کروایا، اب 200 میں سے 199 نمبر لے کے فرسٹ آیا ہے، اور کیوں نہ فرسٹ آتا میں نے محنت ہی اتنی کروائی، دن2 بجے سکول سے واپس آنے کے بعد 3 بجے ٹیوشن بھیج دیا، 5 بجے حافظ صاحب کے پاس بھیج دیا اور تاکید کرتی رہی کہ ایک گھنٹے سے پہلے اسے چھٹنی نہیں دینی، ہوم ورک جو کے لکھنے والا تھا وہ اپنے پاس بٹھا کے کرواتی رہی چاہے آدھی رات تک بیٹھنا پڑتا، روز چار چار ٹیسٹوں کی تیاری کروائی بس ریسٹ کے لئے ایک گھنٹہ دیا، یہی تو راز ہے اسکی کامیابی کا، دیکھنا بورڈ میں فرسٹ پوزیشن لے کے اپنے ماں باپ کا نام روشن کریگا۔۔ان دور اندیش ماؤں کو یہ بھی پتہ ہوگا کہ اردو زبان سے نفرت کرنے اور انگریزی کو بھی اٹک اٹک کے پڑھنے والے یہ آدھے تیتر آدھے بٹیر ، اپنے اپنے خوشنما پنجروں میں مقید سرکس کے شیر، ماں باپ کا کم اور اس انگریز کا نام زیادہ روشن کرینگے جسکی جوتیاں چاٹنے کی انکو تربیت دی جارہی ہے، جس انگریز کے اکسفورڈ کے سلیبس میں خلفاء راشدین کے کارناموں کے بیان کے لئے انکے نام کی بجائے A Wise man( ایک عقلمند آدمی) کے الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ والدین کو چائیے کہ فر فر انگریزی بولتے ،تیز طراز کمپیوٹر کی طرح جسمانی اور ذہنی طور پر محدود صلاحیتوں کے مالک ان سرکس کے شیروں کے لئے کہ جن سے انکی آزادی کی عمر، بچپن کی رنگینیاں اور کاغذ کی کشتیاں چھین لی گئی ہیں، جنکو اجتماعیت سے نکال کر انفرادیت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جنکو صلہ رحمی کا درس دینے کی بجائے رشتے داروں سے دور رکھنے کے لئے ٹوم اینڈ جیری کا سہارا لیا جا رہا ہے، جنکی معصوم شرارتوں کو عذابِ جان سمجھ کر انکو کسی نہ کسی بہانے گھر سے دور رکھنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں، ان بچپن سے محروم بچوں کے لئے تعلیمی ادارے کا انتخاب کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے اچھے سے اولڈ ہومز بھی نظر میں رکھیں۔عجب نہیں کہ یہ سرکس کے شیر کل آپکو بھی خوبصورت پنجروں میں بھیج دیں ، اور واپسی کی ساری کشتیاں آپ سے چھین کر جلا دیں۔
Faiza_abid786@yahoo.com{jcomments on}