تحریر عبدالجبار چوہدری
میرے بڑے بھائی گلفراز حسین کو دُنیا فانی سے رخصت ہوئے 40دن ہو چکے ہیں۔ اُن کی زندگی کی 48بہاریں انتھک محنت اور جہد مسلسل سے عبارت ہیں۔ ایک غریب اور کثیر الحیال گھرانے کا فرد ہونے کی وجہ سے بہت سی ذمہ داریاں بنھائیں موہڑہ حیال کے نذر حسین کے 6بیٹوں اور ایک بیٹی میں منجھلے بیٹے تھے۔ پرائمری سکول کی تعلیم میں نمایاں پوزیشن لی جب گورنمنٹ ہائی سکول بھکڑال میں چھٹی کلاس میں داخلہ لیا تو وہاں ہونہار طلباء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ہائی سکول کا درجہ ملنے کے بعد جب میٹرک سائنس مضامین کے ساتھ پہلے سیشن کا آغاز ہوا تو اس خوش قسمت بیج کے طالب علم تھے۔ جس کے تمام طلباء فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے تھے۔ پورے ضلع راولپنڈی میں گورنمنٹ ہائی سکول بھکڑال کا نام مشہور ہو ا تھا۔ راولپنڈی کے مشہور کالج گورڈن کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا۔ مالی مشکلات اور نا مساعد حالات کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ روزگار کی تلاش اور معاش کے لئے تگ و دو شروع کر دی ۔ اس سلسلہ میں کراچی بھی گئے۔ کچھ عرصہ وہاں کام کیا۔ ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے KRLمیں 20سال کی عمر میں ملازمت اختیار کی۔ خاطر خواہ آمدنی کا ذریعہ میسر آنے کی وجہ سے گھر کے حالات کی تبدیلی اور بہتری کے خوابوں کی تعبیر کی طرف قدم بڑھانے شروع کر دئیے۔ کاروبار بھی کیا مگر بھاری نقصانات نے کمر توڑ کر رکھ دی۔ ان نقصانات نے پورے خاندان کو متاثر کیا۔ معیشت کے ساتھ معاشرت بھی جڑی ہوتی ہے۔ جب معاشی حالات متاثر ہوتے ہیں تو معاشرتی تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ اپنے پرائے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ تو تنگدستی میں رشتہ دار بھی کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ یہی کچھ میرے بھائی کے ساتھ بھی ہوا تنہا اس جنگ کو لڑنے کی ٹھان لی۔ چھوٹے بھائیوں کے تعلیم کے سلسلہ کو بر قرار رکھنابھی ضروری تھا، میری B.Aتک تعلیم میں میرے بھائی گلفراز حسین کا بہت بڑا اور اہم کردار ہے۔ اُنہوں نے مجھے ایف اے کے بعد لاہور بھیج دیا۔ جہاں مجھے دین و دُنیا کے علوم میں عفوطہ زن ہونے کا موقع ملا۔ آبائی مکان کی تعمیر نو کا بیڑا اُٹھایااور اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا۔ جب اُن کی شادی 1997ء میں ہو گئی ۔ بال بچے دار ہونے کے باوجود ان کے اخلاص ، جذبہ خدمت، اور ہر کام میں دامے درمے سخنے شریک ہونے میں کبھی پیچھے نہ رہے۔ بچوں کی تعلیم کی خاطر کہوٹہ شفٹ ہونا پڑا۔ والدین کی خدمت میں کبھی کوئی کو تاہی نہ کی والدین کے علاج معالجہ، اُن کی دیکھ بھال میں کئی سال ایک کئے رکھے۔ خصوصاً والدہ صاحبہ کے علاج اور اُن کی دیکھ بھال ، تیماداری، میں تو دن رات کے آرام کی کبھی پرواہ نہ کی۔ 2010میں خود عارضہ قلب کا شکار ہو گئے۔ رفتہ رفتہ صحت کی صورتحال بگڑنے لگی۔ اس کے باوجود سماجی ، معاشرتی سرگرمیوں میں کمی نہ آنے دی۔
اپنے پرائے سے تپاک سے ملنا، ہلکی مسکراہٹ کو ہونٹوں پہ سجائے رکھنا، ہر ایک کے لئے دیدہ وہ دل فراش کئے رکھنا۔یہ روز مرہ کا معمول تھا۔ مدد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو تھا۔ مشکل وقت میں کبھی کسی کو مایوس نہ کیا۔ جو بن سکا وہ کر گزرے معاملہ فہمی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ مسئلے کے حل کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا۔ رفاہ عامہ کے لیے راستہ کے لیے زمین دینے کا موقع ہو یا خُدا کے گھر کی تعمیر و توسیع کا مرحلہ قربانی دینے میں پہل کی بھر پور زندگی گزاری اپنی ذات میں انجمن کا درجہ رکھتے تھے۔ گہرا دینی شفقت رکھتے تھے۔ رواں صدی کے جلیل القدر ولی کامل حضرت خواجہ نقیب اللہ شاہ قادری سہروردی ابو العلائی کے دست حق پر ست پر بیعت کی۔ پیر بھائیوں کے ساتھ خصوصی محبت و شفقت کے تعلق کو تمام عمر نبھایا ۔ زندگی کے آخری سال چنام شریف میں منعقدہ تمام عرس اور گیارہویں شریف کی تقریبات میں اپنے اہل خانہ اور بیٹوں سمیت شریک ہوئے۔ آخری ملاقات میں حاجی صوفی محمد افضل نقیبی سے اپنی بیماری بابت بیان کیا۔ اور حاجی محمد افضل نقیبی کے بیٹے حاجی غفور افضل نقیبی سے بھی ملاقات کی۔2015 ء والدہ صاحبہ کے انتقال کے بعد آپکی صحت بھی مسلسل خراب رہنے لگی۔دوسری دفعہ دل کی تکلیف ہوئی انجیو گرافی کے بعد روبہ صحت ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی کئی اور بیماریوں نے سر اُٹھانا شروع کیا۔ خصوصاًپتے کی پتھری نے معدے کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ اہل خاندان کی حتی المقدور کوششوں کے باوجود کہ ذہینی دباؤ سے دور رہیں۔ مگر یہ کوشش بھی کام نہ آئیں۔ 20جولائی2017 ء کو صبح کے وقت تیسری مرتبہ دل کی تکلیف ہوئی اور کومے میں چلے گئے۔49دن کومے کی حالت میںKRLہسپتال اسلام آباد زیر علاج رہے۔ معالجوں نے سر توڑ کوشش کی۔ دفتر کے ساتھیوں ، دوستوں ،بہن، بھائیوں ، عزیز رشتہ داروں کا تیمار داری کے لیے تانتا بندھا رہا۔ دعائیں کی گئیں مگر ازل سے کاتب تقدیر کا لکھا ہوا کون ٹال سکتا ہے۔ بالا آخر 7ستمبر2017 ء بروز جمعرات کو دار فانی سے کوچ کر گئے۔ بہن بھائیوں کا مان، بیوی اور بیٹوں کا سائبان ، والدین کا ترجمان گلفراز حسین قیامت تک انتظار کا کہہ کر تہہ خاک چلا گیا۔
سوگواران میں بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔a
184