72

نایاب دہشت گرد/عامر محمود ملک

پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب جاری ہے اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایک دہشت گردایسا بھی ہے جوسر عام دندناتا پھررہاہے ، سب جانتے ہیں لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی اس کی دہشت گردی کا آپ اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ یہ روزانہ تقریباً 650بچوں کی جان لے جاتا ہے۔ کروڑوں لوگوں کو ہسپتالوں میں پہنچا دیتا ہے اور لاکھوں لوگوں کو ہر سال مار دیتا ہے اس کے علاوہ معیشت کو سالانہ کروڑوں، اربوں روپے کا نقصان بھی پہنچا رہا ہے۔ لیکن اس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی، بس کسی جلسے میں یا تقریر میں کبھی کبھارکوئی اس کے خلاف بات کرتا ہے ۔ آپ سب بھی اس دہشت گرد سے خوب واقف ہیں کیونکہ ہم سب کی زندگیوں کا دارومدار اس پر ہے، اس دہشت گرد کا نام ہے ’’پانی‘‘۔۔۔جی ، پانی ایک انمول نعمت ہے، لیکن ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے یہ ایک دہشت گرد بن چکا ہے، کیونکہ ہم جو پانی پیتے ہیں وہ مضر صحت ہے، گندہ اور آلودہ ہے ، اسی پانی کو جب ہم پیتے ہیں، نہاتے ہیں، کھانا تیار کرتے ہیں تو یہ جراثیم ہمارے اندر سرایت کر جاتے ہیں ، ہمیں بیمار بنا دیتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعدادو شمار کے مطابق تقریباً 24مختلف قسم کی مہلک اور وبائی امراض ہیں جن کا سبب گندہ اور آلودہ پانی ہے، ان بیماریوں کا شکار ہو کر پوری دنیا میں ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ بیالیس ہزار افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد ایسے معصوم بچوں کی ہے جن کی عمریں پانچ سال یا اس سے بھی کم ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ ان تمام انسانوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کر کے مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں پینے کا صاف پانی بہت کم لوگوں کو میسر ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پانی بھی کوئی مسئلہ ہے، کیونکہ ہمارے ارد گرد تو پانی کی فراوانی ہے، دریا ہیں، ندی نالے ہیں، زیر زمین پانی ہے، گلیشئیرز ہیں، اس کے علاوہ بارش کا پانی بھی تو ہے، میرے جیسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو وسائل جن کا ذکر میں نے کیا یہ کافی ہیں اور کبھی پانی کی کمی نہیں ہو سکتی، اس لئے ہم پانی کا بے دریغ استعمال کرتے جا رہے ہیں۔ دو گھونٹ پانی پینا ہوتا ہے اور پورا گلاس بھر لیتے ہیں اور باقی پانی ضائع کر دیتے ہیں۔ جانوروں کو نہلاتے ہیں، پانی کا پائپ مسلسل کھلا رہتا ہے اورہر طرف پانی ہی پانی کر دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ نعمت ہے جو ہمیں مفت ملتی ہے اور ہم اسے کھلے دل کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ مال مفت دل بے رحم والا حساب ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کبھی ختم نہیں ہو گالیکن حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، موسمیاتی تبدیلیاں ، ناکافی وسائل اور ناقص انتظام کاری نے ملک کو پانی کے مسئلے سے دوچار کر دیا ہے۔ حالیہ رپورٹس اور اعداو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ملک بھی پانی کی کمی کے شمار ملکوں کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی ایک تہائی سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ایک عالمی ادارے ورلڈ ریسورسس انسٹیٹیوٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان پانچ ممالک کی فہرست میں کیا جا رہا ہے کہ جہاں پانی کی کمی کے مسئلے میں شدت آ تی جا رہی ہے اور جہاں لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی بھی بہت کم ہے۔ یونائیٹڈ نیشنز بھی پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند بد قسمت ملکوں میں کرتے ہیں جہاں پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق آئندہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ اس قدر شدید ہو جائے کہ یہ تمام مسائل کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور خدانخواستہ اس سے ملکی سالمیت اور بقاکو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
پینے کا صاف پانی تیزی کے ساتھ نایاب ہو رہا ہے۔ جتنی تیزی کے ساتھ یہ نایاب ہو رہا ہے، ا تنی ہی زیادہ جانیں لے رہا ہے، ہمارے لئے تو پانی ایک دہشت گرد بن چکا ہے، کبھی نایاب ہو کر جانیں لے لیتا ہے اور کبھی سیلاب بن کر زندگیاں ہڑپ کر جاتا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس نہ ہی کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی۔ تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں سے محفوظ بنانے کے لئے ہم نے دیواریں اونچی کرا دیں اور اوپر خار دار تاریں بھی لگا دیں اور گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ اسلحے کے ساتھ بٹھا دیے، لیکن اس دہشت گرد کا کیا کریں کہ اس کو تو ہم نے خود ہی سکول میں پالا ہوا ہے۔ سکولوں میں بچوں کے پینے کے لئے صاف پانی میسر نہیں، جاتے ہیں سکول میں پڑھنے کے لئے، واپس آتے ہیں بیمار ہو کر۔اسلام آباد میں کل سکولوں کی تعداد 422ہے، جس میں سے صرف 22سکول ایسے ہیں جس میں بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے، دور دراز کے گاؤں اور دیہاتوں کا آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ کیا صورت حال ہو گی یہ دہشت گرد توپورے سماج کو بیمار بنا رہا ہے۔ اس کے بہت سارے سہولت کار بھی ہیں جو اس کو مزید خطر ناک بنا رہے ہیں، مثلاً فیکٹریوں اورکارخانوں سے نکلنے والا زہر اس میں شامل ہو کر اس سے پیدا ہونے والی سبزیوں، پھلوں اور فصلوں میں شامل ہو کر اس کو بھی زہریلا بنا رہے ہیں یہ ہر سطح پر دہشت گردی پھیلا رہا ہے اور کوئی اس کو کنٹرول کرنے والا نہیں۔ ہم اپنے مجموعی وسائل میں سے صرف 0.2فیصد حصہ پانی کی فراہمی اورحفظان صحت کے لئے مختص کرتے ہیں۔ جو نہ صرف ناکافی ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاست جب تک اس مسئلے کی طرف کوئی توجہ کرتی ہے اور عام آدمی کے لئے بھی پینے کے صاف پانی کا انتظام کرتی ہے تب تک ہم اورآپ اپنا خیال خود رکھیں والی پالیسی پر عمل کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ اس لئے گندے اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے لئے حفظان صحت کے اصولوں کو مد نظر رکھیں، پانی کو استعمال کرنے سے پہلے ابال لیں ، بچوں کو سکول میں بھیجیں تو صاف پینے کا پانی دے کر بھیجیں۔ اپنی اوراپنے بچوں کی جانیں محفوظ بنائیں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں