98

نئے پاکستان کا خواب لے لو

محمد نصیر زندہ
ظلم کی اولاد جہالت اور ہوس اگٹھے سفر کرتے ہیں یہ طاقتیں انسان کو حیوان بن کر جینے پر مجبور کر دیتی ہیں انسانیت نام کی کوئی روایت آگے نہیں بڑھ سکتی لوگ معاملات کو اپنی پسند اور ناپسند کے تناظر میں دیکھتے ہیں اچھائی اور برائی کے پیمانے بدل جاتے ہیں دولت کے جاہ و جلال کے بت تراش لیے جاتے ہیں لوگ جن کی پوجا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اخلاقیات کی قدریں منافقت سے آلودہ ہو کر اندھیرے کو مزید گہرا کرتی ہیں قانون میں دولت اور جہالت کے راستے پر چل کر انصاف کو قتل کرتا ہے جہالت ذہنی افلاس کی ماں ہے لوگوں کے دماغ خیالات سے خالی ہو جاتے ہیں ان کے پاس کوئی نیا خیال نہیں ہوتا ہے کیونکہ دولت کی ہوس رکھنے والے اپنے مفادات سے آگے نہیں دیکھ سکتے وہ ہر کام ذاتی فائدے کیلئے کرتے ہیں پاکستان ظلم ، نا انصافی ، بدعنوانی ، جہالت اور ہوسِ ذر کی مکمل تصویر ہے
پاکستان کا پہلا مسلہ بیمار جمہوریت ہے یہ بیمار جمہوریت پاکستان کو نگل رہی ہے اگر جمہوریت کی صحت مند جہت کا تعین نہ کیا گیا تو پاکستان کیلئے جمہوریت ایک عذاب بن جائے گی بیمار جمہوریت کو صحت مند بنانے کا طریقہ انتہائی آسان اور قابل عمل ہے جمہوری نمائندوں کو ترقیاتی فنڈ قانون سازی کے ذریعے روک دیے جائیں اس کا اطلاق بلدیاتی نمائندوں پر بھی ہو مختلف سرکاری اداروں کو فنڈز خرچ کرنے کے اختیارات دیئے جائیں سرکاری ملازم ہمیشہ ڈرے گا اور اس کا احتساب کرنا بھی بہت آسان ہو گا بد عنوانی کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دے کر کرپشن کا راستہ روکا جا سکتا ہے آج جمہوریت ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت سے تبدیل ہو چکی ہے جمہوری نمائندے بڑے بڑے محلوں میں رہتے ہیں اور قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں کوئی ایک ایسا نمائندہ نہیں جو ایک بار منتخب ہو کر غریب ہو گیا ہو حتیٰ کے کونسلرز بھی سیاست میں آنے کے بعد امیر ہو جاتے ہیں جمہوری نمائندوں کا کام قانون سازی ملکی ترقی کی سمت متعین کرنا اور اداوں کی نگرانی کرنا ہو اس سے ایک بات ضرور ہو گی کہ جمہوریت کاروبار نہیں بنے گی بد عنوان لوگ الیکشن ہی نہیں لڑیں گے پڑھے لکھے اور صاف ستھرے لوگ سیاست کریں گے ذرا سوچیں ایک ایم این اے یا ایم پی اے ایک کروڑ کا منصوبہ لگاتا ہے تو اسے 15%کمیشن لازمی ملتا ہے اور وہ اپنے من پسند لوگوں کو ٹھیکہ دے کر ان سے بھی پیسے بٹور لیتا ہے اگر ملک کو پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف دھکیل دیا جائے یا متناسب رائے دہی سے نمائندوں کا چناؤ کیا جائے تو ملک کیلئے بہتر ہو گا ایک آدمی صرف 2بار صدر یا وزیر اعظم بنے اس کی مدت بھی 4سال ہو کسی صدر یا وزیر اعظم کی اولاد سیاسی عہدوں پر فائز نہ ہو اس سے موروثی سیاست کا راستہ بند ہو جائے گا پاکستان کیلئے صحت مند جمہوریت پہلی اینٹ ہے اگر یہ ٹیڑھی رکھ دی گئی تو ساری عمارت ٹیڑھی ہو کر زمین بوس ہو جائے گی ملک پاکستان میں ہر شعبہ زوال پر ہے لیکن تعلیمی زوال عروج پر ہے اس کی سب سے بڑی علامت تعلیم کا انڈسٹری کی صورت اختیار کرنا ہے جس کی وجہ سے تعلیم غریب کی دسترس سے باہر ہو گئی ہے پورے ملک میں ایک نصاب رائج ہو پرائیویٹ سیکٹر کو بھی اس کا پابند بنایا جائے تعلیم معیاری اور سستی ہو اساتذہ کے وقار میں اضافے کیلئے اقدامات کیے جائیں ہر پرائیویٹ ادارے کو ٹیکس دینے پر مجبور کیا جائے یہ کام تحصیل کے تعلیمی افسران سے لیا جائے ٹیکس طلبہ کی تعداد کے مطابق ہو یونیورسٹیوں کے معاملات کی سخت نگرانی کی جائے صحت کا مسئلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے صحت مند لو گ ہی صحت مند ریاست کی تشکیل کرتے ہیں کتنے افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ انگریزوں نے جو ہسپتال بنائے تھے ان میں ہم کوئی قابل ذکر اضافہ نہ کر سکے عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام کی صحت پر لگایا جائے صحت مند پاکستان حکومت کی اولین ترجیح ہو خالص خوراک ہر شہری کا حق ہے ملاوٹ کرنے والے کو سخت سزادی جائے ۔ ایک اور مسئلہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے اور کوئی ضابطہ اور قانون نہ بنایا گیا تو بڑھتی ہوئی آبادی کا عفریت وسائل تو نگل جائے گا ۔پانی آنے والے دور میں زندگی اور موت کا مسئلہ بن جائے گا اگر اس کو حل نہ کیا گیا تو پاکستان عوام کیلئے یہ زمین ایک جہنم سے کم نہیں ہو گی اگر پہاڑوں میں بہنے والے ہر ندی نالے اور دریا کے آگے بند باند ھ دیا گیا تو ہم کامیاب ہو جائیں گے اس کے برعکس اگر پانی بہہ کر سمندروں میں گرتا رہا تو ہم ضرور موت کی وادی میں ہانک دیئے جائیں گے پانی سے جڑا ہوا ایک او مسئلہ درختوں کی کٹائی ہے زندگی کے لیے آکسیجن کے ذخائر ناپہد ہو رہے ہیں اس کے لیے حکومت کو نئے جنگل بسانے ہوں گے ہر گھر میں ایک درخت کا ضابطہ نافذ کرنا ہو گا درخت کاٹنے والے کو سخت سزا دینا ہو گی معاشی وسائل کا ضیاع معشیت کو کمزور تر کمزور کر رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست کسی چیز کی تعمیر و خریدو فروخت میں براہ راست شریک نہیں ہو تی کہ ریاست سارے کام کنٹریکٹر کے ذریعے کرتی ہے جس سے سارے وسائل یہ لوگ ہڑپ کر جاتے ہیں ۔ یہی حالات درآمدات کا ہے مختلف کمپنیاں ایک خطیررقم کما لیتی ہیں ان سب مسائل کا حل ہو سکتا ہے اگر ملکی نظام کار آمد ہوتو ۔ایک ایسا احتساب جو مساوات پر مبنی ہو ملک کیلئے بہت اہم ہے ۔اگر ہمارے احتسابی ادارے کسی جنرل ، کسی جج یا کسی سیاست دان کا احتساب کرنے کی جرأت نہیں رکھتے تو سمجھ لیں ہم کسی پسماندہ افریکی ملک میں رہ رہے ہیں کڑا احتساب تحفظ کی ضمانت ہے بے روزگاری نہ صرف پاکستان میں ہے بلکہ دوسرے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں میں اس کی بڑی وجہ آبادی کا دباؤ او ر دولت کی نا منصفانہ تقسیم ہے اس سلسلے میں کئی ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس میں سرمایہ کاری کے بغیر لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو سکتا ہے مثلاً حکومت ہر مزدور کی دیہاڑی ایک ہزار روپے کر دے تو اس کا اثر سرمایہ کاروں پر پڑے گا لوگوں کی جان و مال حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ اسلے پر مکمل پابندی لگا دی جائے اس سے جرام میں روک تھام پیدا ہو گی ۔ ریاست مختلف اداروں کا نام ہے ستم ظریفی ہے کہ ہمارے ادارے بہت کمزور ہیں ایک تھانیدار ایک سیاستدان کے سامنے بے بس اور مجبور ہے ادارے مضبوط ہوں گے تو ریاست استحکام پیدا ہو گا موجودہ نظا م میں ظلم اور نا انصافی کی بڑی گنجائش ہے ہماری بیمار جمہوریت بدمعاش اور گارڈ فادر پیدا کر سکتی ہے لیکن کوئی عظیم لیڈر جو تاریخ کے صفحات کے زندہ رہے پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان صلاحیتوں کا قبرستان اگر ہم اپنے خیالات کو پستی سے بلندی کی طرف نہ لے گئے تو ذلت اور رسوائی اس قوم کا مقدر ہو گا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں