بھارتی اداکار راج کپور کے بیٹے اور بالی وڈ اسٹار رشی کپور نے پاکستان کے شہر پشاور میں اپنے دادا پر تھوری راج کپور کے آبائی مکان کی جزوی توڑپھوڑ پر رد عمل میں کہا ہے کہ کپور خاندان کی اس عمارت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ہم نے اس مکان کو کبھی نہیں دیکھا لہذا ہماری اس سے
کوئیجذباتی وابستگی نہیں رشی کپور کا کہنا تھا کہ وہ تینوں بھائی اس عمارت میں کبھی نہیں رہے۔ نوائے وقت 18 جنوری2016 ء میں شائع ہونے والی خبرنے بچپن کو بروقت یاد کروادیا۔ اپنے آبائی علاقوں کی تانگ میں آہیں بھرنے والے کو سخت جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ بچپن ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ تو چھپانے سے چھپتی ہے اور نہ ہی بھلانے سے بھلائی جاتی ہے با لخصوص غربت میں گزرا بچپن تو کبھی نہیں بھولتا ہمارے آباؤ اجداد نے جس حالت میں وقت گزارا وہ جب بیان کیا جاتا ہے
تو آج کی نسل کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں خصوصاََ جنہوں نے ہجرت کر کے کسی اور جگہ بسیرا کر رکھا ہو ان کے ہونٹوں سے نکلے الفاظ تو سننے اور سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔بچپن کے ساتھی، کھیل تماشے، جن مکانوں میں رہ کر بچپن کے دن گزارے ہوتے ہیں وہ عمارتیں پھر جہاں بیٹھ کر تعلیم حاصل کی ہوتی ہے وہ مسجد، سکول سب سے بڑھ کر استاد اور ساتھ بیٹھے جماعتیے(کلاس فیلوز) کبھی نہیں بھولتے بیری کے درختوں سے بیر توڑ کر کھانا، بڑے لوگوں کے گھروں سے امرود اور مالٹے کے پھل توڑ کر خود بھی کھانا اور ساتھیوں کو بھی کھلاناکسے یاد نہیں آتا۔ لسی کے کٹورے کے کٹورے ڈکار جانا گھنے درختوں کے سائے میں چارپائیاں بچھا کر کڑ کتی دوپہروں میں آرام کرنا کسے یاد نہیں یہ بہت پہلے کی باتیں تو نہیں چند دہائیاں قبل کی ہیں۔
بچپن کی فرمائشیں اور پھر ان کے پورا ہونے کے انتظار میں کئی ماہ اور سالوں کا بیت جانا تو اکثر ہوتا تھا۔ شور بے والے سالن کی دعوتیں ہوتی تھیں حلوے کے کڑاہ پکائے جاتے تھے اور واقعتاََ یہ دعواتیں پیٹ بھر کر کھانے کا وقت ہوتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد جہاں جہاں ٹھکانہ ہوا وہ ان کا آبائی علاقہ کہلایا اور جو ہمارے مسلمان بھائی ہجرت کر کے آئے انہیں زیادہ تر رہائشیں شہری علاقوں میں الاٹ ہو ئیں اس طرح ہمارے پاکستان کے ہر شہری کا آبائی علاقہ دیہی ہی ٹھہرا میرا آج بھی ہر نوجوان سے یہی سوال ہوتا ہے کہ ہم تو پنڈی یا لاہور کے رہنے والے ہیں میرا اگلا سوال ہوتا ہے کہ آپ کے دادا یا پردادا کہاں رہتے تھے تو پھر وہ اپنا آبائی علاقہ بتانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
ترقی کے مواقع تلاش کرنے کے لئے ہجرت بھی آبائی علاقے میں بچپن گزارنے کے موقع کو ضائع کر ر ہی ہے بہت سے والدین کو روزگار نوکری یا کاروبار کی خاطر دوسرے شہروں میں مجبورََ منتقل ہونا پڑتا ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ یہ منتقلی کئی سالوں پر محیط ہو جاتی ہے ان میں بعض شیر خوار بچے بھی ہوتے ہیں نیتجتاََ ان بچوں کا بچپن کرائے کے مکان اجنبی شہر میں گزرتا ہے اور ان سے جذباتی و ابستگی بھی نہیں ہوتی۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ترقی کی منزلیں طے کر کے آج ایک نام کے مالک ہیں مگر جب ان کو بھی کر یدا جائے تو یہ کہتے ہوئے کبھی نہیں شرماتے کہ ہمارا بچپن بھی پھٹے کپڑوں اور ٹوٹی جو تیاں پہنے فلاں جگہ گزرا ہے۔کئی بھارتی و زیر اعظم اور نامور شخصیات جب بھی پاکستان کا دورہ کرتے ہیں اپنے آبائی علاقے یا سکول کو دیکھنے کی خواہش ضرور کرتے ہیںیورپ کے طرزِ رہائش نے ہم سے جہاں اور بہت سی چیزیں چھینی ہیں وہاں اس نے بچپن کی یاد بھی چھینی ہے۔ کسی اعلیٰ افسر کے بیٹے سے جب پو چھیں کہ آپ کا بچپن کہاں گزرا، تعلیم کہاں حاصل کی اور کام کہاں کر رہے ہیں
اور مستقبل میں کہاں رہنے کا ارادہ ہے تو وہ پاکستان کے تقریبا تمام بڑے شہروں کا نام لے گا کہ پیدائش پشاور کی بچپن روالپنڈی میں جوانی لاہور اور مستقل رہائش کراچی کا بتائے گا یا پھر یورپ کے کسی ملک میں آئندہ زندگی گزرانے کے عزم کا اظہار کرے گا۔ بھلا اس طرح کی زندگی گزرانے والوں سے تہذیب و تمدن، رواج اور کسی ایک علاقے کی مخصوص، پہچان کی توقع رکھنا عبث ہے ۔بعض لوگ نقل مکانی اور ہجرت کو گہرے زخم سے تشبیہ دیتے ہیں جو مند مل ہونے میں بہت دیر لگا تا ہے اور بالا آخر نشان ضرور چھوڑ جاتا ہے بچپن کی یادیں ہر انسان کے لئے قیمتی سر مایہ ہوتی ہیں ان یادوں کو کبھی نہیں بھلا یا جا سکتا چاہے ز ندگی یورپ میں گزرے، اعلیٰ عہدے پر فائز رہے یا دوسرے کسی شہر میں مستقل رہائش اختیار کر لے۔{jcomments on}