109

موٹروے پولیس/ میاں بابر صغیر

میاں بابر صغیر
بحثیت ادارہ موٹروے پولیس کا شمار پاکستان کے سب سے دیانتدار ادارے میں ہوتا ہے اس ادارے کے ملازمین جن کی زیادہ تر تعداد موٹروے پولیس کی صورت میں نظر آتی ہے عوام میں خود اپنی مدد آپ اور فرض شناسی کی بدولت مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر چکی ہے یعنی عوام نہ صرف ان کی بہت عزتی کرتی ہے بلکہ ا ن کے ساتھ منسلک نیشنل ہائیوے اتھارٹی کے ملازمین کی بھی قدر کرتی ہے اور انہیں موٹروے پولیس کا حصہ سمجھتی ہے جی ٹی روڈ پر تو اکثر سفر ہوتا رہتا ہے گذشتہ دوماہ میں مجھے متعدد مرتبہ براستہ موٹروے لاہور سے اسلام آباد سفر کرنے کا موقع ملا تو بحثیت عام آدمی میں نے محسوس کیا کہ موٹروے پولیس میں اب کچھ خامیاں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں جنہیں اگرکنٹرول نہ کیا گیا تو وہ بڑھتے بڑھتے خطرناک اور بے قابو ہو جائیں گی کسی بھی ادارے کو بنانے کے لیے تو عرصہ لگ ہی جاتا مگر اس کی عزت قدر اور معیار کو پیسوں سے نہیں محنت اور لگن سے بنایا جاتا ہے اور اس کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا ہے جب وہ ادارہ مقبولیت کی بلندیوں کو چھولے تو پھر سب سے مشکل کام اس کی عزت قدر اور معیار کو بر قرار رکھنا ہو تا ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ موٹروے پولیس میں چند چھوٹی چھوٹی خامیاں کسی قلعے میں چھوٹی چھوٹی دراڑوں کی مانند محسوس ہو رہی ہیں جب دشمن نے کسی قلعے پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو وہ اسی قسم کی چھوٹی چھوٹی دراڑوں کا کھوج لگا تا ہے اور انہیں دراڑوں کو نشانہ بناتے ہوئے وہ آگے بڑھتا ہے محکمہ موٹروے پولیس کی سب سے بڑی دشمن کرپشن ہے جو اپنے ساتھ بے ایمانی جھوٹ اور کام چوری بھی ساتھ ملائے ہر وقت ان کے سر پر مسلط رہتی ہے موٹروے پولیس جو شروع شروع میں مشہور تھی کہ کسی کے دباؤ میں نہیںآتی کسی کی سفارش نہیں مانتی قانون اور اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ اپنے موقف پر ڈٹ جاتی ہے اب اس میں قدرے نرمی آچکی ہے موٹروے پولیس کے افسران دباؤ قبول کرتے ہیں حکومتی دسر کاری اہلکاروں سے ڈرنے لگ پڑے ہیں اور عوام کے ساتھ بد تمیزی سے بھی پیش آتے ہیں آج سے دس سال قبل کی صورتحال یہ تھی کہ جب کوئی موٹروے پولیس کا آفیسر یا نمائندہ کسی بھی ڈرائیور کو روکتا تو پہلے سلام کرتا سریا میڈم کہہ کر مخاطب ہوتادھیمے لہجے میں ڈرائیور سے پوچھتا کہ کیا اسے معلوم ہے کہ اس نے کیا غلطی کی ہے اگر معلوم ہوتا تو اس کے رویے اور جرم کے حساب سے اسے جرمانہ کر دیتا اگر نہیں معلوم ہوتا تو انہیں قانون کے متعلق آگاہی فراہم کرتا تاکہ کم از کم ڈرائیور کو یہ تو احساس ہوگاکہ اس نے کیا غلطی کی ہے اور پھر انہیں ان کے جرم کے حساب سے جرمانے کا بتاتا دونوں صورتوں میں اگر کوئی بے مقصد یا فضول بحث کرتا یا اپنے جرم پرڈھیٹ بن جاتا تو وہ پولیس آفیسر یا اہلکاربحث میں الجھنے کی بجائے اس کا جرمانہ بڑھاتا جاتا یوں ڈرائیور کی جان تب ہی چھوٹتی جب وہ جرمانہ ادا کر دیتا یہ ایک چھوٹا سا سبق ڈرائیور کو یہ بھی احساس دلاتا کہ اگر اس نے آئندہ یہ حرکت کی تو اس کی کسی نے نہیں سننی چاہے وہ معمولی آدمی ہو یاپھر کوئی بھی بڑا آفیسراسے یہ بھی احساس دلاتا کہ موٹروے جی ٹی روڈ پر اس نے ہرصورت قوانین کی پابندی کرنی ہے اور اس طرح عرصہ دراز تک ڈرائیور ہوش سے ڈرائیونگ کرتا جس کے باعث نہ تو دوسرے ڈرائیوروں کے لیے خطرہ بنتا اور نہ خودہی اپنی جان کو خطرے میں ڈالتا گذشتہ چند سالوں سے جب میں نے متعدد ڈرائیوروں اور موٹروے پولیس اہلکاروں یا افسروں سے اس معاملے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ اب موٹروے پولیس میں چھوٹی چھوٹی کرپشن نظر آنا شروع ہوگئی ہے جس کا باعث سب سے پہلے تو وہ ملازمین تھے جو ٹریفک پولیس تھا نہ پولیس یا پھر دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹرانسفر ہو کر آئے دوسرے نمبر پر گذشتہ اور موجودہ حکومت اس کی ذمہ دار ہے جو اپنے وزراء کو اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو قانون کی پابندی سکھانے کی بجائے ان کی پشت پناہی کرتی ہے اور موٹروے پولیس پر اوپر سے دباؤ ڈالتی ہے بعض اوقات چند ایسے معاملات بھی ہوئے کہ قانون کی پابندی کرنے اور اس پر ڈٹ جانے والے افسران کے وزراء اوربااثر شخصیات نے تبادلے کروا دیے جس سے موٹر وے پولیس اہلکاروں کا مورال ڈاؤن ہوگیا اور انہوں نے اپنی ملازمت بچانے کی فکر کرنا شروع کر دی اگر حکومت انہیں ملازمت کی گارنٹی فراہم کرے تو یہ بے فکر ہو کرقانون کی پاسداری کریں اب اگر بااثر لوگ انہیں گا لیاں اور دھمکیاں دیں اور حکومت بھی انہیں فورس کرے کہ یہ ان بااثر لوگوں کی باتیں مانیں تو یہ اپنا غصہ بالآخر عوام پر ہی نکالیں گے جس سے کرپشن کا با قاعدہ آغاز ہوجاتا ہے ایک یہ ہی واحد ادارہ ہے جس میں ابھیتک اسی فیصد انصاف برتا جارہا ہے اگر حکومت چاہے تو صرف اسی ایک ادارے کی بدولت ملک میں جاری دہشت گردی بد امنی پر قابو پا سکتی ہے ریونیو میں بے تحاشہ اضافہ ہو سکتا ہے جب ملک کی عام سڑکوں پر انصاف بڑتا جائے گا پھر دیکھا دیکھی شہروں میں بھی ایک اچھی روایت قائم کی جا سکتی ہے موٹروے پولیس کے ارباب اختیار ان سے التماس ہے کہ وہ اس محکمے کی عزت کو خراب ہونے سے بچائیں اور ان اطلاعات کا سدباب کریں جن میں سرکاری اہلکاروں، مہنگی گاڑیوں،بااثرافراد کا چالان نہ کرنا غیر قانونی نمبر پلیٹس والی گاڑیوں کو نظر اندازکرنا مسافروں سے زبردستی لفٹ حاصل کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں راہ حق پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں