فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی
مسلح تحریک آزادئ کشمیر کے روح رواں اور آزادکشمیر کے سابق صدر، وزیراعظم مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم و مغفور کے بارے میں کسی ایک ہی نشست میں بیٹھ کر لکھنا یا ان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ایک ہی وقت یا ایک ہی کالم میں کرلینا محال ہے ۔ تاہم ہر شخص اپنی اپنی سطح پر ان سے ذاتی تعلق کی بناء پر کچھ نہ کچھ لکھتا رہے گا۔ ہر شخص یہ سوچ رہا ہے کہ اسی کا مجاہد اول سے قریبی اور شفقت کا رشتہ رہا ۔ مگر ان کی رحلت کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ یہاں تو ہر ایک فرد کا ان کے ساتھ یکساں رشتہ اور تعلق تھا ، ہر کوئی اپنی اپنی ضرورت کے تحت فیض یاب ہوتا رہا۔ میں بھی سردار صاحب کے ساتھ اسی ذاتی تعلق کے ناتے ان کی شخصیت کے حوالے سے چند یادگار اور تاریخی باتوں کا ذکر کرنا مناسب خیال کرتا ہوں۔ میرا مجاہد اول سے قربت کا رشتہ جن شخصیات کے توسط سے قائم ہوا ان میں یعقوب خان، سابق معاون خصوصی، راجہ محمد صدیق ، ممبر قانون ساز اسمبلی، مرزا سعید جرال، سابق سٹیٹ آفیسر کشمیر ہاؤس شامل رہے اور پھر مجید صدیقی ڈیوٹی آفیسربرائے وزیراعظم جو گزشتہ کئی سالوں سے مجاہد اول کے ذاتی سٹاف میں فرائض انجام دے رہے ہیں، میرے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں ان کی وساطت سے بھی مجاہد منزل میں جناب مجاہد اول کی ہمہ جہت شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع میسّر رہا۔ میری سیاسی وابستگی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو میرے والد محترم مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے بلدیاتی کونسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے جو مجاہد اول کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔سردار صاحب کی سیاسی، مذہبی اور نجی زندگی کے بہت سے روشن پہلوہیں جن کا احاطہ کرنا کئی کتابوں پر محیط ہو گا۔ ہماری یہی بڑی خوش بختی ہے کہ ایک چھوٹی سی ریاست کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے سردار صا حب سات دہائیوں تک علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سیاست میں اپنے مثالی کردار اور کمال کے نظم و ضبط کے پیش نظر یکساں طور پر شہرت کے حامل رہے۔
تحریک آزادئ کشمیر کے نتیجے میں آزادکشمیر کا جو خطہ قدرت نے ہمیں بخشا اس میں سردار صاحب نے ریاستی تشخص کو نہ صرف بحال کیا بلکہ آج تک پوری ذمہ داری سے اس کو قائم رکھنے کے لیئے مکمل پہرہ بھی دیتے رہے۔ ریاستی آئین، قادیانیوں کا دائرہ اسلام سے اخراج، شرعی عدالتوں کا قیام، سرکاری زبان ارود، مہاجرین جموں کشمیر کی آبادکاری کے علاوہ چند بڑے کارنامے ان کے نام سے منسوب ہیں۔ سردار صاحب نہ صرف ایک کامیاب سیاستدان تھے بلکہ وہ ایک کامیاب حکمران بھی رہے۔ درویشانہ صفت کے حامل ہونے کی وجہ سے نہ کبھی حکومت کے چھن جانے کا اندیشہ رہا اور نہ اقتدار کے حصول پر خوشی کا اظہار کیا بلکہ ہر حال میں اللہ کا شکر ہی بجا لاتے رہے۔ ریاستی سیاست کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان کی سیاست میں بھی بھرپور انداز میں مثبت کردار ادا کرتے رہے۔ سیاسی نشیب و فراز سے نبرد آزما ہونے میں انھیں ملکہ حاصل رہی۔ وہ پاکستانیوں سے بڑے پاکستانی تھے ۔ وہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے داعی تھے۔ وہ نہ صرف دوراندیش سیاست دان تھے بلکہ وہ ایک معلم، مبلّغ، مجاہداور حکمران بھی تھے جس وجہ سے وہ پاکستان کے سیاسی، مذہبی، دفاعی، سفارتی، ادبی اور عوامی حلقوں میں یکساں مقبول رہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک سیاستدان اور جنرل ضیاء الحق جیسے جرّی سپہ سالار بھی سردار صاحب کی نہ صرف صلاحیتوں کے معترف رہے بلکہ بعض اہم اور حساس ملکی معاملات میں ان کو سردار صاحب کی قریبی مشاورت بھی میسر رہی۔ ان کا مطمۂ نظر پاکستان اور پاکستانیت ہی رہا یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی پھانسی کو اسلام اور پاکستان کے لیئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مخالفت کرتے رہے۔ اسلام اور پاکستان کے استحکام کے لیئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کی دلچسپی اور کاوشوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
سردار صاحب نے جہاں مسلم کانفرنس کے کارکن کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا وہاں ریاستی اور انتظامی ڈھانچے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیئے بیوروکریسی اور سرکاری ملازمین کی اخلاقی تربیت میں بھی قابل رشک کردار ادا کیا۔ سیاسی طور پر قائد ملت چوہدری غلام عباس ؒ کی جانشینی کا صحیح معنوں میں حق ادا کرتے رہے۔ان کی شخصیت سیاسی عہدوں اورحکومتی مرتبوں سے بالا تر رہی۔ وہ حکومت اور اقتدار کے رسیا نہ تھے ۔ انھوں نے سیاست میں ایسا معیار مقرر کر دیا تھا کہ حکومت اور اقتدارخود ان کے پیچھے چلتے رہے۔ سیاسی کارکن کی عزت نفس کی بحالی کا فن بھی سردار صاحب سے زیادہ کون جانتا تھا۔تصوف اور روحانیت ان کا شوق تھا اور سیاست ان کی مجبوری۔ انھوں نے سیاست میں برادری ازم، تعصب ، اقربا پروری ، جھوٹ، عدم برداشت اور ناانصافی کے خاتمے کو یقینی بنایا۔ ریاست میں سیاسی رہنماؤں کے لیئے ایک ایسا مثالی معیار مقرر کرتے ہوئے مساوات اور رواداری کو فروغ دیا کہ بڑے سے بڑے سیاسی حریف بھی ان کو مات نہ دے سکے یہی وجہ ہے کہ آج تک پوری ریاستی سیاست کا محور سردار صاحب ہی کی شخصیت رہی۔ ان کی شخصیت ہمارے لیئے مشعل راہ ہے۔ اپنی علالت کے آخری ایام میں اپنے دیرینہ سیاسی رفیق اور سابق سینئر وزیر ملک نواز کو بطور خاص وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ سیاسی کارکنوں سے تعلق کو مضبوط رکھنا، غربا و مساکین کی ہمہ وقت خدمت کو اپنا شعار بنانا اور افواج پاکستان سے اپنا ناتا نہ توڑنا۔اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنی عمر کے آخری ایام میں بھی انھوں نے ہمیں پاکستانیت، حب الوطنی، پسے ہوئے طبقے کی داد رسی اور عوام الناس کے مسائل سے آگاہی اور ان کے حل کی کوششوں میں مصروف رہنے کی تلقین کرتے ہوئے مثالی کردار سازی پر اپنی آخری مہر بھی ثبت کر دی۔{jcomments on}
208