موت بر حق ہے اور ہر ذی روح کو اسکا ذائقہ ضرور چھکنا ہے اور کوئی ذی روح اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کر سکتا کہ اسے ایک نہ ایک دن موت کے منہ میں جانا ہے لیکن اس امر سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں کہ بعض لوگ اس فانی جہان میں ایسے بھی ہیں کہ جن کی موت سے پیدا ہو نیوالا خلا برسوں پُرنہیں ہوتا ۔میری مراد پوٹھوار ایجوکیشنل اکیڈمی سر صوبہ شاہ کے بانی پرنسپل اور چیف ایگزیکٹیوجناب قربان حسین منہاس ہیں جن کا انتقال گذشتہ دنوں سر صوبہ شاہ کے نواحی گاؤں منیاندہ میں ہوا ۔مرحوم کی ساری زندگی علم وادب کی شمع کو فر وزاں کرنے میں گذری اور آخری سانس تک علم وادب کی خدمات کے دوران ہی مالک حقیقی سے جا ملے مرحوم نے سوگواروں میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں مرحوم ممتاز سماجی شخصیت (ر) سیکرٹری یوسی چوآخالصہ اورنگزیب کے بھائی اور سرصوبہ شاہ سکول کے مدرس ارشد محمو د منہاس کے چچا تھے مرحوم نہایت خلیق ہنس مکھ ۔سنجیدہ مزاج اور پُر کشش شخصیت کے حامل تھے جسمانی اور قلبی صفائی میں اپنا منفرد اور یکساں معیار رکھتے تھے ہر دل عزیز اور ہر ملنے والے کے دل میں گھر کرنے والے قربان حسین مرحوم نہایت مدبر اور استقامت مزاج میں اپنی مثال آپ تھے نہایت حوصلہ مند ۔صابر اور عزم صیم کے حامل سر براہ ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر اگلا قدم علم کی ترقی میں اپنے کردار کی معقول سعی میں گذارنا ان کی زندگی کا خاصا تھا مستقل مزاج اور اصول پرستی ان کی پہچان تھی حضرت علی ؑ کا فرمان ہے کہ زندگی کو اس طرح گذارو کہ جب تم مر جاؤ تو لوگ تم پر روئیں اور اگر زندہ رہو تو لوگ تم سے ملنے کے متمنی رہیں ۔ میں نے موصوف متوفی کی نماز جنازہ میں ان کے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ایسے لوگوں کو بھی آبدیدہ پایا جو محض ان کے کردار سے متاثر اور اُ ن کے جاننے والوں میں سے تھے پھر یہ سن کر اور بھی حیرانی ہوئی کہ اُن کے پرائیویٹ تعلیمی ادارہ میں کئی غریب طلبا وطا لبات مفت تعلیم حاصل کر رہے تھے علا وہ ازیں اُن کی ماہانہ فیس بھی دیگر تمام نجی اداروں سے کم تھیں گویا تعلیمی خدمت اور علم کا فروغ ان کی زندگی کا ذوق اور شوق تھا کم گوئی اور نرم گوئی ایک منجھے ہوئے ادیب کی طرح ان کی عادت میں شامل تھی وہ صاحب ذوق دوستوں کی محفل میں فروغ علم وادب کی نئی جہتوں کی تلاش پر کھل کر گفتگو کرتے اور اپنا مدعا بیان کرتے ۔علم کی جس جیت پر بھی اُن سے بات ہوئی اُنھیں کسی طور تشنہ نہ پایا اس کے باوجود کہ طویل عرصہ تک شوگر جیسے دیمک نما مرض کے مریض تھے کبھی بیماری کو خود پر مسلط نہ ہونے دیا بلکہ جرا تمندانہ انذاز میں اسکا مقابلہ کرتے رہے وہ کہا کرتے تھے کہ زندگی آپ سے جو تقاضا کرتی ہے اُس پر پورا اترنے میں انسان کو کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہیں کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کی اس کائنات میں ہر روز لاکھوں لوگ اس دنیا سے رشتہ توڑتے ہیں اور لاکھوں بچے جنم لے کر اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں اور آنکھ کھولتے ہیں اور نظام کائنات کا یہ سلسلہ تا ابد جاری رہے گا لیکن دانشوارتعلیم یافتہ اور علمی ضیا کی ترویج کو مشن بنا کر زندگی گذارنے والے بہت کم پیدا ہوتے ہیں مفکر پاکستان حضرت اقبال کا قول ہے کہ عالِم کی موت عاَلم کی موت ہوتی ہے ایک عالم ایک ادیب ایک دانشوار ایک سائنس دان ،انجینئر ،ڈاکٹر کی تکمیل میں کتنی انسانی صلاحتیں بروئے کار رہ کر جدوجہد میں مصروف عمل ہوتی ہیں تو ایسے جو ہر افق عالم پر اپنی تاب وتوانی سے درخشاں پذیر ہوتے ہیں بقول شاعر ۔
مت سہل راسے سمجھو بھرتا ہے فلک برسوں ۔ تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔
مرحوم نے اپناتعلیمی ادارہ جو پوٹھوار ایجوکیشنل اکیڈمی کے نام سے رجسٹرڈ کرا کے درس وتدریس کی ترویج میں اپنی جہد وجد کا آغاز کیا تھا دراصل وہ پوٹھوہار کی مٹی سے ان کی حقیقی لگن کا بھی عکاس تھا وہ پوٹھوہار کو قومی افق پر نمایاں طور پر پھولتا پھلتا دیکھنا چاہتے تھے لفظ پوٹھوہار کو کثرت سے ابھرنا ان کی درس گاہ کے نام کی ایک وجہ بھی تھی انھوں نے قومی اثاثوں سے محبت اور لگن میں گہری دلچسپی رکھی وہ اپنے اداراہ میں قومی شخصیات پر کسی نہ کسی حوالے سے تقریبات سجاتے رہتے تھے جس میں نئی نسل کو اپنی قومی او ر علاقائی میراث اور ثقافت سے روشناس کراتے تھے انھوں نے قومی اور علاقائی اثاثوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مکتب اسلام کی سر بلندی اور حقانیت کو اپنا فرض اول سمجھ کر طلبا اور عوام تک مختلف مواقع مثلا یوم میلاد النبی ؐ شب معراج ،یوم حسین پر دین کی عظمت رفعت اور سیر ت النبی ؐ سے واقعات نقل کر کے طلبا میں دین کی حقیقی تصویر کو منور کرنے کی سعی میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرتے رہے آپ کا ادارا سر صوبہ شاہ کے پرائیویٹ اور نجی اداروں میں منفرد مقام کا حامل ہے ادارے کی ترقی کے رموز سے با خبر رکھنے کے لیے انھوں نے اپنے بیٹے خرم علی کی بھی تربیت کررکھی تھی جو ادارہ کی ترقی اور خوشحالی میں اپنے والد کی نہ صرف معاون تھے بلکہ ان کے ساتھ مدرسہ کے جملہ انتظامات کے نگران بھی ہیں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم قربان حسین منہاس کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرما ئے اور تمام سوگواروں کو صبر و جمیل عطا کرے اور مرحوم کی اوالاد میں وہ اوصاف سعیدہ پیدا فرمائے جو ان کے والد کے حقیقی میراث ہیں ۔{jcomments on}
77