125

غلطیاں /مدثر فیاض بھٹی

کہتے ہیں غلطیاں سب ہی کرتے ہیں مگر فرق اتنا ہوتاہے کہ عقلمند اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنا جانتا ہوتا ہے جبکہ اس کی با نسبت کم عقل شخص اپنی غلطی کو ظاہر کر بیٹھتا ہے غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اس لیے اسے غلطیوں کے پتلے سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جونہ کسی عقلمند نے کر کے چھائی ہوتی ہیں اور نہ ہی کسی کم عقل نے کر کے ظاہر کی ہوتی ہیں بلکہ وہ غلطی توان دونوں نے نہیں کی ہوتی وہ غلطی تو کسی اور نے کی ہوتی ہے جو کہ کسی وجہ سے ان دونوں کے قسم کے افراد پر ڈال دی جاتی ہے ایسی غلطی کو عقلمند چھپا بھی نہیں سکتااور کم عقل اس کو ظاہر کیا کرے گا ہمارے معا شرے میں کچھ چیزوں کے ناپ تول کے طریقے کچھ افسوس ناک اورانوکھے ہیں مثلاکسی کو کم تر سمجھنے کے لیے اس کا غریب ہونا ہی کافی ہے کسی کو مجرم قرار دینے اور اس پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے اس کی کمزوری ہی کافی ہے غریب کی خرید وفروخت اس کی بھوک کا حساب لگا کرکی جاتی ہے کسی کو روٹی دے کر اقتدار لیا جاتا ہے تو کسی کی روٹی چھین کر بدلہ لیا جاتا ہے کہیں حق اورسچائی کے دام گولیوں کے بہاؤ ملتے ہیں تو کہیں بے قصور زبان کی خاموشی توڑنے کے لیے حبس بے جا اور غیر قانونی ماڑ دھاڑ کا سہارا لیا جاتا ہے جب ہمارے معاشرے میں اس قسم کے انوکھے ناپ تول کے طریقے ہوں گے تو شائد محرومیاں اس معاشرے کا مقدر بن جاہیں گی ایک مجرم کو جرم کی پاداش میں جب سزا ملتی ہے تو اس کی اصلاح کچھ حد تک متوقع ہوتی ہے مگر جب کسی بے قصور کو مجرم قرار دے کر سزا دی جاتی ہے تو اس کے ایک سچا پکا مجرم بننے میں کوی کسر باقی نہیں رہتی جرم تو جرم ہے وہ کوئی بھی کرے اور اسکی سزا بھی اس کو ملنی چائیے مگر یہاں جرم کوئی اور کرتا ہے اور سزا کسی اور کو ملتی ہے جس سے ہمارے معاشرے میں مجرم اور جرائم بڑھتے جا رہے ہیں محرومیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ایک دفتر میں بر سوں کام کرنے والے سینئیرورکر کو صرف شک کی بنیاد پر لٹکا دیا جاتا ہے اور اس پر کچھ الزامات لگائے جاتے ہیں جس کے متعلق وہ جانتا تک نہیں ہوتا پھر اس پر جرم ثابت کرنے کے لیے اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے تو یہ وہ سب چیزیں ہیں جو ایک اچھے بھلے کام کرنے والے شخص کو مجرم بننے کی دعوت دیتی ہیں ورنہ وہ تو کام کر رہا ہوتا ہے اور رزق حلال کے حصول کے لیے نکلا ہوتا ہے محرومیوں کے اس سفر کا اختتام یقیننا بہت بھیانک ہوتا ہے ایک اچھا بھلا شخص کسی ناکردہ گناہ کی پاداش میں کرائم کی دلدل میں گھسیٹا جاتا ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے کریمینل بنانے کی ٹریننگ دی جا رہی ہوتی ہے أج معاشرے میں کتنی ہی غلط فہمی سے پیدا ہونے والی یا ذاتی،مذہبی یا سیاسی دشمنی کی بنیاد پر ایک ایسے شخص کو سکیورٹی اداروں کے حوالے کر دیا جاتاہے کہ جن کے نام سے ہی روحیں کانپتی ہیں مگر اس کے بعد وہ شریف النفس انسان یا تو انتقام میں کوئی ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جس کے بعد وہ قانونی مجرم بن جاتا ہے یا پھر اس راستے کو ہی اپنا شعار سمجھتے ہوئے اس پر ہمیشہ کے لیے چل نکلتا ہے بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جرائم پیشہ گروپس کا ألہ کار بن جاتا ہے اسی طرح کسی بھی مذہبی جماعت کے عتاب کا نشانہ بننے والا سرگرم کارکن جب کسی ایسی پریشانی سے دوچار ہوتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ وہ کسی عسکری تنظیم کے ہتھے چڑ ھ جائے جسے عام زبان میں بم دھماکوں اور غلط کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے اس وقت وطن عزیز کو دہشت گردی کے جن خطرات کا سامنا ہے اس کے پیچھے ہمارے سابقہ اور کچھ موجودہ حکمرانوں کی چند غلطیاں ہیں ان غلطیوں کی وجہ سے أج ہم أگ اور خون میں لت پت ہیں ان ہی دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کے الزامات کچھ بیرونی اسلام دشمن ممالک پر بھی لگائے جاتے رہے ہیں جو کہ ایسی تنظیموں کی باقاعدہ فنڈنگ کرتے ہیں جو کہ وطن عزیز میں خانہ جنگی اور انارکی پھیلانا چاہتے ہیں ایسی تنظیموں کا سب سے بڑا حدف یا تو سکیورٹی ادارے ہوتے ہیں یا پھر مذہبی مقامات چاہے وہ مساجد ہوں یا گرجا گراور ان کے شر پسند مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کو وہ نوجوان مل جاتے ہیں جن کا تعلق کسی ایسے ادارے سے رہا ہوتا ہے اور وہ ادارے یا تنظیم کی غلط پالیسی کی بنیا د پر اپنے ادارے یا تنظیم سے متنفر ہو چکا ہو تا ہے جوں ہی ایسے جوشیلے نوجوان ان کے ہتھے چڑھتے ہیں تو وہ فوری طور پر انہیں الٹے سیدھے اسلام سے مخالف غلط عقائد کے بیانات سنا کر اور کچھ ویڈیو دکھا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے تیار کر لیتے ہیں اس کے لیے وہ انہیں بھاری معاوضے اور ہر طرح کی سہولیات دیتے ہیں تاکہ یہ دل و جان سے ان کے کام کرنے پر راضی ہو جائیںأج ہمیں سوچنا ہو گا غور کرنا ہو گاکہ ہم کیا کر رہے ہیں کہیں ہم اپنے وطن کے لیے خود اپنے ہاتھوں سے مجرم تو تیار نہیں کر رہے کیا ایسا تو نہیں کہ ایک اچھے بھلے کام کرنے والے شخص پر الزام لگا کر اس پر بے جا تشدد کر کے اپنا مخالف تو نہیں بنا رہے یا اپنے مخالفین کا ألہ کار بننے کے لیے تو نہیں اکسا رہے اگر ایسا ہے تو خدا را کچھ خیال کریں اسلام نے ایک مسلمان کی عزت کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں کی عزت کو مکہ کی حرمت سے بھی زیادہ بلند کہا ہے کسی کی عزت اور مال اور مذہبی مقامات کو خراب کرنے والوں کی اللہ تعالی کے ہاں سخت پکڑ ہے اس لیے کسی کو مجرم قرار دینے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے اور ہر طرح کی تحقیق کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے و رنہ ممکن ہو تو ایسے معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے اللہ ہمیشہ بہتر فیصلہ کرنے والی ذات ہے وہ جو فیصلہ کرے گاوہ ہی اچھا اور قابل قبول فیصلہ ہو گا اللہ ہمیں دوسروں کی عزت،مال،جان اور مذہبی مقامات کا محافظ بنائے أمین{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں