110

غزل

قطرہ دریا کو تُو نے موجِ دریا کیوں کیا
ذرّہ ریگِ رواں کو سنگِ صحرا کیوں کیا
شکوہ تقدیر بیجا ہے‘مگر حیر ا ں ہوں مَیں
بے ضمیروں کی زمیں پر مُجھ کو پیدا کیوں کیا
دوستوں نے بر سرِ محفل لگائیں تُہمتیں
کس لیے پُوچھوں میں اِن سے مُجھ کو رسوا کیوں کیا
اہلِ تاج و تخت سے یہ پُوچھتی ہے زندگی
جو مسیحا تھا اُسے نذرِ چلیپا کیوں کیا
کیا ہلاکو خاں کا عہدِ جبر پھر ہے آ گیا
سر بُریدہ مہ رُخوں کا جشن برپا کیوں کیا
کس نے یہ تصویر کھینچی خامہ خونیں سے پھر
خالِ عارض کو ترے ہمرنگِ صہبا کیوں کیا
بات جو بھی جعفری تھی دو دلوں کے درمیاں
بے وفا نے ہر گلی میں اُس کا چرچا کیوں کیا
(3 جنوری 2024‘ اسلام آباد)

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں