121

عورت کارڈ کا استعمال

ملک کے مختلف شہروں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد مختلف نوعیت کی وارداتوں میں ملوث ہے اور قریبا” ہر تیسرا شخص ان سے متاثر ہوا کچھ واقعات کا ذکر کرتے ہیں

  1. کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد شہر کی ایک شاپ پہ خواتین نے کپڑے وغیرہ پھاڑ کر خود کو برہنہ کردیا تھا۔ حقیقت اس کی ویڈیو سامنے آنے سے واضح ہوئی کہ وہ خواتین خود پیشہ ور تھی اور دکاندار پر الزام لگا کر کپڑے پھاڑ کر فرار ہونے کی کوشش میں تھیں۔

2۔سیالکوٹ میں دو عیسائی لڑکیوں نے ایک لڑکا پھانس رکھا تھا اس سے خوب پیسے بٹورتیں اور زنا کرتیں وہ لڑکا لاکھوں کا مقروض ہو گیا آخر تنگ آ کر وہ لڑکا انہیں قتل کرنے پر مجبور ہو گیا اور خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اس نے بتایا کہ لڑکیوں نے باقاعدہ میری ویڈیوز بنا رکھی تھی اور خوب بلیک میل کرکے پیسہ بٹورتی تھیں۔

3۔ خواتین خوب تیار ہوکر سنسان علاقوں میں گاڑی یا بائیک والے سے لفٹ مانگتی ہیں وہ اگر اپنے ساتھ بیٹھا لیں تو چند کلومیٹر آگے جاکر اترتی ہیں تو روڈ پہ موجود کچھ افراد ڈنڈوں کے ساتھ حملہ کرکے تشدد کرتے ہیں اور سامان لوٹ لیتے ہیں

4۔خواتین بائیک پہ سوار فرد کی جیب سے موبائل فون یا بٹوہ مہارت سے چرا لیتی ہیں اکثر بزرگ خواتین ایسی وارداتیں کررہی ہیں

5۔ ایک ایس ایچ او صاحب نے انکشاف کیا کہ انکے پاس مختلف اوقات میں اجتماعی زیادتی کے مختلف کیسز ایسے بھی آئے جن میں بردہ فروش عورتوں نے لین دین کے معاملات کی وجہ سیاجتماعی زیادتی کی رپٹ درج کروا دی

۔تفتیش کے دوران اصل حقیقت کا علم ہوا ہم عام طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ملزموں کو سزا بھی ملے اور انکے خلاف کاروائی بھی ہو۔

مگر ایسے واقعات کی تشہیر نہ ہو اس قسم کے واقعات کی تشہیر سے معاشرے پر بریاثرات مرتب ہوتے ہیں مگر خواتین بہت زیادہ غیر محتاط ہوتی ہیں انکا نا مناسب رویہ معاشرے میں اضطراب پیدا کرتا ہے

6۔لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں مخصوص بس اسٹاپوں پر باپردہ خواتین باقاعدگی سے کھڑی نظر آتی ہیں جو درحقیقت گاہکوں کی تلاش میں ہوتی ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے

کہ اس سرگرمی کی روک نہ ہونے کے باعث ان بس اسٹاپوں پر آنے والی عام خواتین بھی کس قدر غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔7۔ کسی بنک اکاونٹ کے متعلق لڑکی کی کال آئے گی کہ اکاونٹ ویری فائی کرنا ہے

اور تمام ڈیٹیل پوچھیں گے اگر کوئی سادہ لو آدمی تمام تفصیلات بتا دے تو اکاونٹ میں موجود رقم سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
آج کی اس تحریر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کے شیطان صرف مردوں پر غالب نہیں آتا اور صرف مردوں سے ہی گناہ اور غلطی نہیں کراتا بلکہ عورتوں سے بھی کرواتا ہے شیطان صرف مردوں کا دشمن نہیں بلکہ عورتوں کا بھی دشمن ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ آج کل کی عورتیں دوسرے مردوں کو ذلیل اور رسوا کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہیں ‘ جنسی زیادتی کا الزام لگا سکتی ہیں اور ہمارا معاشرہ عورتوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے

ان کی بات کو سچ جان کر مردوں کو ہی قصوروار قرار دے دیتا ہے۔ یہ ابھی سے نہیں بلکہ موسی علیہ الصلاۃ و السلام کا وہ واقعہ بھی یاد رکھیں جب ان کی قوم نے حضرت موسی کو بدنام اور رسوا کرنے کے لئے ایک عورت کو جال بنایا تھا

کہ اس عورت نے آپ پر زیادتی کا الزام لگایا تھا۔ تمام مرد حضرات کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کے لئے اپنے آپ کو ہر قسم کی مشکوک چیزوں سے دور رکھیں

۔ کیونکہ کوئی بھی کچھ بھی آپ پر غلط الزام لگا سکتا ہے اور خصوصاً تمام دکاندار اپنی دکان اور گھروں پر کیمرہ لگائیں کیونکہ بری عورت جیسی مصیبت کبھی بھی آپ کو فتنے میں مبتلا کر سکتی ہے

۔ اکثراوقات پورا پاکستانی میڈیا ان عورتوں کا ساتھ دے رہا ہوتا ہے لیکن حقیقت بعد میں واضح ہوجاتی ہے لیکن ملک کے بہت سے علاقوں سے ان جیسی خواتین کے ڈسے افراد بھی بلبلا اٹھے ہیں

کہ ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات پیش آچکے ہیں کچھ لوگ عوام کے ہاتھوں اپنی ہڈیاں بھی تڑوا چکے ہیں۔یہ عورت کینام پر ایک منحوس دھبہ ہے۔

حالانکہ عورت کے روپ میں پاک ماں ہے۔بیٹی ہے۔اور بیوی جس کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔لیکن اس طرح کی عورتوں سے پاک دامن عورتوں پر بھی لوگ انگلیاں اٹھانے لگ جاتے ہیں۔ان خواتین نے عورت ذات کا تقدس پامال کیا ہے اور ہمارا میڈیا بھی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں منفی کردار ادا کرتا ہے

۔ایسے واقعات اب عام ہو رہے ہیں۔ عورت کارڈ کے نام پر کئی معزز افراد کو بلیک میل کیا جا رہا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں کوئی میڈیا کا درست کردار نہیں ہے۔ ہمیشہ ہی خواتین مظلوم نہیں ہوتیں مرد حضرات بھی گناہ سے مبرا ہو سکتے ہیں۔۔ایسی عورتیں شریف عورتوں کا نام بھی بدنام کرتی ہیں۔

اکثر مظلوم لوگ ہماری انتہا پسند ناسمجھ قوم کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔جہاں کہیں بھی عورت کے ساتھ زیادتی اور ظلم کی بات ہو پہلے ہی لمحے میں مرد کو قصوروار ٹھہرا دیا جاتا ہے لیکن بہت سے واقعات میں عورت ہی مجرم ثابت ہوئی ہے جس علاقے کا بلیک میلر چورنیوں نے عورت کارڈ کھیلتے

ہوئے ناک میں دم کیا ہو جس گھر سے نقدی اور زیورات چوری ہو گئے ہوں جس دوکان سے تھان چوری ہو گئے ہوں جس سہاگن کا سلامیوں والا پرس چوری ہو جائے پورے ملک کے متاثرہ لوگوں کو ان چورنیوں سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے

جو خود اپنے کپڑے پھاڑ لیں کاروباری یونین اپنے دفاع کے لیے ڈنڈا فورس’ اتحاد و یکجہتی اور قانونی ماہرین کی خدمات لینے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔عورت جب چاہے عورت کارڈ کھیل سکتی ہے

مظلوم بن جاتی ہے ایسی عورتیں پیشہ وار چور ہوتی ہیں اور جب انہیں لگتا کہ ہم پھنس رہی ہیں تب ہی کپڑے پھاڑ کر فرار بچنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں

۔یہ لمحہ فکریہ ہے مذہب کارڈ کے بعد اب عورت کارڈ کا استعمال کیا جا رہا ہے اگر اس کو نہ روکا گیاتو بہت دیر ہو جائے گی۔میڈیا اور قانون نافذ کرنے والوں کو بھی جلد بازی کی بجائے معاملے کی ابتدائی تحقیق کرکے کاروائی کرنی چاہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں