269

عطائی ڈاکٹرز موت بانٹنے لگے

مشہور مقولہ“ نیم حکیم خطرہ جان نیم ملاں خطرہ ایمان” وطن عزیز کے دونوں شعبہ جات پہ پورا اترتا ہے۔بہرحال آج صرف عطائی کلینک پہ بات ہوگی۔ ہم دیکھ رہے ہیں

کہ کہوٹہ اور کلرسیداں میں صحت کی ناکافی سہولیات کیوجہ سے عوام الناس مجبوراً نجی کلینکس کا رخ کرتے ہیں۔ ہر شہری کی کوشش ہوتی ہے کہ علاج معالجے کیلئے آخری حد تک سرکاری سہولیات سے فائدہ اٹھایا جائے

جب بات بگڑتی نظر آتی ہے تو مجبوراً یا سرکاری ڈاکٹر کے مشورتاً مریض آخری سٹیج پہ یا مر جائے نجی کلینکس یا بڑے ہسپتال کا رخ کروایا جاتا ہے جی ہاں مرا ہوا مریض بھی ریفر ہوجاتا ہے

۔ کچھ ایسا ہی واقعہ گزشتہ دنوں کلرسیداں کے نجی ہسپتال(فاطمہ) میں ہوا جہاں ایک خاتون کو ڈیلیوری کیلئے لایا گیا۔ ہسپتال انتظامیہ نے چالیس ہزار روپے کے عوض داخل کرکے آپریشن شروع کردیا

۔ لواحقین کے بیان کے مطابق آپریشن کرنے کیلئے کسی اور لیڈی ڈاکٹر کا نام استعمال کیا گیا جبکہ آپریشن کوئی اور کررہا تھا۔ دوران آپریشن خاتون کی موت واقعہ ہوگئی

جس پہ انتظامیہ نے مردہ خاتون کو راولپنڈی لے جانے کا کہہ دیا۔ جب لواحقین راولپنڈی پہنچے تو وہاں بتایا گیا کہ خاتون کی موت دو گھنٹے قبل واقع ہوچکی ہے۔ جس پہ لواحقین سیخ پا ہوگئے۔

ہسپتال انتظامیہ کے اس گھناؤنے عمل اور نان پروفیشنل ایکٹ سے فیملی کو مالی جانی اور ذہنی صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اکثر اوقات دیکھا گیا

کہ ڈیلیوری کیسز میں نو ماہ نجی یا سرکاری ہسپتال چیک اپ اور ادویات دیتے رہے کہ کچھ پیچیدہ نی، لیکن عین ڈیلوری کے وقت یہ کہہ دینا کہ بڑے ہسپتال لے جائیں

انکے پروفیشن کو زیب نہ دیتا بلکہ اس عہدے پہ کام کرنے کی جواز بھی نہیں رہتا۔لواحقین کے مطابق ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے انکو قانونی کاروائی نہ کرنے پہ دس لاکھ روپے کی بھی آفر کی گئی۔

اس سلسلے میں لواحقین نے تھانہ کلرسیداں میں درخواست دے رکھی ہے۔تقریباً ایک ماہ قبل اس طرح کا واقعہ کہوٹہ کے علاقے نارہ میں پیش آچکا ہے جہاں ایک نوجوان نے غلط انجکشن لگنے سے تڑپ کر جان دے، کچھ دن کلینک بند رکھا گیا، ابتدائی طور پہ ڈاکٹر اور سٹاف کو حراست میں رکھا گیا

تاہم تمام کاروائی آنکھوں میں ریت ڈالنے کے مترادف ہوئی۔ ڈاکٹر کیساتھ ایک پورا مافیا کھڑا ہوگیا جب کہ ابھی پوسٹ مارٹم تک نہ ہوا تھا راضی نامے کی باتیں چل پڑیں۔اس طرح کے واقعات تسلسل سے ہورہے ہیں۔ اسی علی کلینک میں اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں کئی مریض جان دے چکے ہیں۔

تاہم آج تک کوئی کاروائی نہ ہوسکی۔ ذرائع مطابق اس کلینک کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ ہے جو مالک کو کسی دوسرے شعبے سے ملنا ناممکن ہے۔ یہی حالات ہر جگہ ان موت کے سنٹر کے ہیں

جہاں آئے مریضوں کی مال اور جان پہ یہ کلینکس کھڑے ہیں۔زندگی موت اللہ کے اختیار میں ہے لیکن آئے روز ان نجی کلینکس میں پیسے کے ہوس کے پجاری انسان ہی انسان کو لوٹتے نظر آتے ہیں

۔ کبھی کبھار کوئی واقعہ ہوجائے تو معاشرتی ردعمل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے لیکن اس طرح کے واقعات تسلسل سے ہونا جہاں معاشرے میں بے چینی کو جنم دیتا ہے وہیں انتظامیہ اور محکمہ صحت کی نااہلی لاپرواہی سامنے آتی ہے۔ کلرسیداں اور کہوٹہ میں قائم زیادہ تر کلینکس محکمہ صحت اور ہیلتھ کئیر کمیشن سے

رجسٹرڈ نہ ہیں۔ غیر مصدقہ سند ہولڈر فارمیسیز اور کلینک دھڑلے سے چلا رہے ہیں۔ جس سے یہ تاثر واضح ہوجاتا ہے کہ انتظامیہ اور محکمہ صحت کی ملی بھگت کے بغیر یہ دھندہ ناممکن ہے

۔ان عطائی ڈاکٹروں اور کلینکس کی باقاعدہ رجسٹریشن اور باقاعدہ چیکنگ ہونی چاہئیے، یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ یہ کلینکس جگہ اور نام بدل کر کام کرتے چلے رہے ہیں۔

چوکپنڈوڑی میں ایک معروف کلینک تیسری جگہ شفٹ ہوا ہے۔ کوئی سال پہلے راقم کو ایک بار وہاں جانے کا اتفاق ہوا نارمل چیک اپ فیس اور ادویات کی مد میں قریب چھے ہزار کا بل بنایا گیا

۔ غیر ضروری ٹیسٹ اور سیملیمنٹ بھی اضافی کئے گئے جب پوچھا تو کہا گیا کہ یہ لازمی ہیں۔یہ کم از کم لوٹ مار کی شرح ہے ورنہ یہاں عام بل بھی دس سے بیس ہزار بنتا ہے

جبکہ دیگر بڑے ٹیسٹ ایکسرے اور ڈیلوری کا کام کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ بلاشبہ نجی شعبہ ہر فیلڈ میں عوامی ضروریات پوری کرتا ہے تاہم اس حد تک لوٹ مار اور دو نمبری کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے۔

اس طرح کے واقعات کے بعد کچھ کاروائی اعلی حکام کی جانب سے کی جاتی ہے تاہم کچھ معاملے ٹھنڈے ہونے پہ دوبارہ کام چل پڑتا ہے۔ اس صورتحال پہ قابو پانے کیلئے انتظامیہ، سی ای او ہیلتھ، صوبائی وزیر صحت، ہیلتھ کئیر کمیشن اور وزیراعلی پنجاب پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے

کہ عوام کی جان مال سے کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ہر ڈاکٹر و کلینک کی رجسٹریشن باہر نمایاں طور پہ آویزاں ہو۔ان عطائی ڈاکٹروں اور کلینکس کے خلاف سخت قانون بنائے اور اس پہ عمل درآمد بھی کروائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں